ہوسکتے اور وہ حکومت وقت کی فرمانبرداری اور امن پسندی ہے۔ اگر خداتعالیٰ کے رسول دنیا کو امن دینے کے لئے نہیں آئے تو وہ یقینا دنیا کے لئے رحمت نہیں کہلاسکتے۔ بعض لوگوں نے سلسلہ احمدیہ کی اس تعلیم سے یہ دھوکا کھایا ہے کہ شاید جماعت احمدیہ حکومت ہند سے سازباز رکھتی ہے اور اس کا تعلق حکومت برطانیہ کی جاسوس جماعت سے ہے۔‘‘
(الفضل قادیان نمبر۱۱۸ ج۲۱ ص۳، مورخہ ۲؍اپریل ۱۹۳۴ئ)
یہ تو ہم کہہ نہیں سکتے کہ اس کی اندرونی وجہ کیا تھی۔ لیکن ان کے لٹریچر سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعد ان میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ حتیٰ کہ میاں محمود احمد قادیانی نے اپنے خطبۂ جمعہ میں یہاں تک کہہ دیا کہ: ’’حکومت نے اندھا دھند اپنا قلم اٹھایا اور ہمیں باغی اور سلطنت کا تختہ الٹ دینے والا قرار دے دیا۔‘‘ (الفضل قادیان نمبر۵۸ ج۲۲ ص۳، مورخہ ۱۱؍نومبر ۱۹۳۴ئ)
حتیٰ کہ حکومت نے اس جماعت کے افراد کو بڑے بڑے عہدے دینے بھی بند کر دئیے۔ جس کی وجہ سے میاں محمود احمد کو یہ کہنا پڑا کہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ: ’’حکومت کے اپنے راز بھی محفوظ نہیں رہے… اگر اعلیٰ عہدوں پر اس کی وفادار جماعت کے ارکان ہوںتو اس کے راز مخفی رہیں۔‘‘ (الفضل قادیان نمبر۶۳ ج۲۲ ص۴،۵، بابت ۲۲؍نومبر ۱۹۳۴ئ)
جب حکومت نے اس طرح ان سے دست شفقت کھینچ لیا تو انہیں تحفظ خویش کا خیال آیا اور میاں محمود احمد قادیانی نے اپنی جماعت کے لوگوں سے تاکیداً کہا کہ وہ اپنے آپ کو منظم کریں اور ان کی تشکیل کردہ نیشنل لیگ میں شامل ہوں۔
مسلم لیگ یا کانگریس
یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان مین تحریک آزادی زوروں پر تھی۔ منیر رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ پہلے جماعت احمدیہ اس زعم میں تھی کہ شاید ہندوستان میں حکومت برطانیہ کی جانشین وہی ہو۔لیکن انگریزوں کی بدلی ہوئی نگاہوں کو دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں تحریک آزادی کا ساتھ دینا چاہئے۔ لیکن وہ اس بارے میں تذبذب میں رہے کہ مسلم لیگ کا ساتھ دیا جائے یا کانگریس کا۔ سرظفر اﷲ خان مسلم لیگ کی طرف آئے۔ لیکن انہوں نے جلدی محسوس کر لیا کہ مسلمان انہیں برداشت نہیں کرسکیںگے۔ (دہلی میں مسلم لیگ کا جو اجلاس ان کی زیرصدارت منعقد ہونے والا تھا اسے ہنگامہ کی وجہ سے بند ہال میں منعقد کرنا پڑا تھا) معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ ان کا سمجھوتہ ہوگیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علامہ اقبالؒ نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس پر پنڈت جواہر لال نہرو کی طرف سے تین چار