کوشش میں حق بجانب ہوںگے۔ اوّل تو ملک کی آبادی کے ایک قابل لحاظ حصے کا اس طرح آزادی سے محروم رہنا اپنی ذات میں ایک معیوب بات ہے۔ محض انسانی ہمدردی کے جذبے سے بھی ان کی امداد کرنا ہمارا فرض ہے۔ دوسرے سیاسی غلامی ایک متعدی عارضہ ہے۔ احمدیوں کی تقلید میں یا ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسی ہی دوسری جماعتیں قائم ہونا غیر اغلب نہیں۔ جماعت اسلامی کی صورت میں ایک مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس لئے ملک کا آزادی خواہ طبقہ احمدیہ تحریک کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔
یہ ہیں مقاصد جن کو سامنے رکھ کر یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ علامہ اقبالؒ کی جس تحریر سے اوپر حوالے دئیے گئے ہیں۔ اسی میں ایک جگہ موصوف نے امید ظاہر کی ہے کہ جمہوریت کی نئی روح جو ہندستان میں پھیل رہی ہے۔ وہ یقینا احمدیوں کی آنکھیں کھول دے گی اور انہیں یقین ہوجائے گا کہ ان کی دینیاتی ایجادات بالکل بے سود ہیں۔ یہی میری بھی خواہش اور امید ہے۔ دیکھئے احمدی نوجوان کب آنکھیں کھولتے ہیں۔ تاریخ نے احمدیت کو غلط ثابت کردیا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ’’اسلام جدید تفکر اور تجربے کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور کوئی ولی یا پیغمبر اس کو قرون وسطیٰ کے تصوف کی تاریکی میں طرف واپس نہیں لے جاسکتا۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۵۹) ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب اس تاریخی حقیقت کو قبول کر لیں۔
آخر میں صرف یہ کہنا ہے کہ یہ کتاب تمہارے لئے تمہارے ایک بھائی نے انتہائی محبت اور خلوص کے جذبات سے لکھی ہے۔ اس کے لئے اتنا صلہ کافی ہے کہ تم کتاب کو تعصب اور بدگمانی کے جذبات سے خالی ہوکر پڑھو۔ محمد جعفر خان!
کیمبل پور ۲۹؍نومبر ۱۹۵۷ء
کتاب الفتن
مرزاغلام احمد قادیانی کے دعاوی کا ابتدائی مآخذ وہ روایات ہیں جو ’’کتاب الفتن‘‘ کے عنوان کے تحت احادیث کی کتب میں درج ہیں۔ بہت حد تک مرزاقادیانی کے دعاویٰ کی صداقت کا انحصار اس امر پر بھی ہے کہ آیا آخری زمانے کے جو حالات ان روایات میں بیان کئے گئے ہیں۔ وہ ہمارے دور پر صادق آتے ہیں اور آیا مسیح اور مہدی کے اوصاف اور کردار کا اطلاق مرزاقادیانی کی ذات پر ہوسکتا ہے۔
چونکہ قیامت کے قریب دجال کا فتنہ پیدا ہونے اور حضرت مسیح اور مہدی کے ظہور کے واقعات مستند احادیث کے سب مجموعوں میں کسی نہ کسی شکل میں مذکور ہیں۔ اس لئے عام مسلمانوں