پر اس سے پہلے اس انداز سے کہیں بحث نہیں کی گئی۔ مستند، مدلل، مسکت اور اس کے ساتھ ہی شگفتہ، سنجیدہ اور جذبات سے یکسر الگ ہٹ کر، اﷲتعالیٰ مصنف کی اس عمر بھر کی محنت کو ثمر قبولیت سے باریاب فرمائے۔ والسلام!
طلوع اسلام ٹرسٹ (رجسٹرڈ)
۲۵؍بی، گلبرگ۲، لاہور
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
پہلا باب … پس منظر
آغاز سخن
جولائی ۱۹۷۳ء کی بات ہے۔ (ہفتہ وار) چٹان (لاہور) کے نمائندہ نے میرا ایک انٹرویو لیا۔ جو اس اخبار میں بھی چھپا اور بعد ازاں، طلوع اسلام بابت اگست ۱۹۷۳ء میں بھی شائع ہوا۔ اس انٹرویو کے ایک سوال کے جواب میں میں نے اپنے کوائف زندگی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’میری پیدائش مشرقی پنجاب کے قصبہ بٹالہ (ضلع گورداسپور) میں ہوئی۔ بٹالہ ایک مذہبی شہر تھا۔ اس لئے (اس دور کی عام فضاء کے مطابق) وہاں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے علاوہ، آریوں، عیسائیوں اور قادیانیوں سے اکثر مناظرے رہا کرتے تھے۔ اس طرح مجھے فرقوں اور مذہبوں کے تقابلی مطالعہ کا موقعہ مل گیا۔ بعد میں مختلف فرقوں کے باہمی مباحثوں یا آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مناظروں کا دور تو ختم ہوگیا۔ لیکن ختم نبوت کے موضوع پر میں مسلسل لکھتا چلا آرہا ہوں۔ کیونکہ میرے نزدیک انکار ختم نبوت کا فتنہ امت کے لئے بڑا خطرناک ہے۔ چونکہ میں اس مسئلہ پر قرآن خالص کی روشنی میں گفتگو کرتا ہوں۔ روایات میں نہیں الجھتا۔ اس لئے فریق مقابل کے پاس میرے دلائل کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔‘‘
چونکہ مسئلہ ختم نبوت نے ان دنوں ملک میں پھر خاص اہمیت اختیار کر لی تھی۔ بالخصوص اس مطالبہ کے پیش نظر کہ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ اس لئے احباب کی طرف سے ملک کے مختلف گوشوں سے تقاضے موصول ہونے لگے کہ میں اس اہم مسئلہ پر جامع طور پر لکھوں تاکہ ذہنوں میں ابھرنے والے مختلف سوالات، ایک ہی دفعہ، اطمینان بخش انداز سے حل ہو جائیں۔ ان تقاضوں کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ حضور نبی اکرمﷺ کی سیرت طیبہ کے متعلق میری تصنیف ’’معراج انسانیت‘‘ کے پہلے ایڈیشن کے آخری باب میں میں نے مسئلہ ختم نبوت پر مختصراً