چلے گئے۔ تآنکہ تاریخ اس دور میں آپہنچی جسے علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں دورقدیم اور عہد جدید میں حد فاصل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی اس دور میں جب حضور رسالت مآبﷺ کا ظہور ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب انسانیت اپنے زمانۂ طفولیت سے آگے بڑھ کر عہد شباب میں پہنچ رہی تھی۔ سلسلۂ رشدوہدایت کی اس داستان حقیقت کشا اور بصیرت افروز کو میں نے (اپنی کتاب معراج انسانیت، نقش اوّل کے باب ختم نبوت میں) ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
بچپن سے جوانی تک
بچہ جب پہلے پہل چلنا سیکھتا ہے تو اسے اٹھنے کے لئے بھی کسی آسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سہارا لے کر اٹھتا ہے اور ابھی دوچار قدم بھی چلنے نہیں پاتا کہ لڑکھڑا کر گر پڑتا ہے۔ گرتا ہے تو ادھر ادھر حسرت بھری نگاہوں سے مدد کی تلاش کرتا ہے۔ مایوس ہوجاتا ہے تو روکر کسی اٹھانے والے کو پکارتا ہے (کہ اس وقت اس کے پاس پکار کا یہی ایک ذریعہ ہوتا ہے) کوئی انگلی پکڑ کر اٹھانے والا مل جائے تو پھر چار قدم چل لیتا ہے۔
عالم طفولیت
ذرا اور بڑا ہو جائے تو گنڈیلنے کے سہارے چلتا ہے۔ وہ ہاتھ سے چھوٹ جائے تو پھر مشکل ہو جاتی ہے اور بڑا ہو جائے تو اپنے پاؤں پر کھڑا ضرور ہو جاتا ہے۔ لیکن چلتا پھرتا انہی مقامات میں ہے جن سے وہ مانوس ہوتا ہے۔ غیر مانوس مقامات کی طرف جانے سے گھبراتا ہے۔ جانا ہی پڑے تو کسی کا ساتھ ڈھونڈتا ہے۔ پھر اگر راستے میں چھوٹی سی نالی بھی آجائے تو اسے دریا نظر آتی ہے۔ صحن کے نشیب سے برآمدے کا فراز ایک پہاڑ دکھائی دیتا ہے اور بڑا ہو جائے تو دن کی روشنی میں ہر طرف جا نکلتا ہے۔ لیکن اندھیرے میں اسے چھلاوے نظر آتے ہیں۔ اس وقت پھر کسی رفیق سفر کی احتیاج محسوس کرتا ہے۔
جوانی کا زمانہ
لیکن جب وہ اسی طرح اٹھتے بیٹھتے، گرتے پڑتے، گھبراتے سنبھلتے پوری جوانی کو پہنچ جاتا ہے تو پھر اسے انگلی پکڑنے والے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مانوس وغیر مانوس مقامات کا امتیاز اٹھ جاتا ہے۔ روشنی اور اندھیرے کا فرق بھی باقی نہں رہتا۔ اب وہ ہر طرح یہ بتانا چاہتا ہے کہ اسے کسی خارجی مدد کی احتیاج نہیں۔ وہ اس قسم کی مدد کو اپنی شان جوانمردی کے خلاف سمجھ کر اس میں خفت محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنے پاؤں پر آپ چلنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی حفاظت خود کرنے کا متمنی ہوتا ہے۔ وہ اپنی منزلیں آپ قطع کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔ البتہ اس مقام پر اسے ایک