ہوگیا ہے تو ساری دنیا کے مسلمانوں کے دل وقف صد اضطراب ہیں۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھئے اور سوچئے کہ اگر (خدا نہ کردہ) کسی وقت مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ پر غیروں کا تسلط ہو جائے اور ہم وہاں تک پہنچنے سے روک دئیے جائیں تو اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے ہم کیا کچھ نہیں سوچیں اور کیا کچھ کر گزرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوںگے۔ اسی قسم کے جذبات ان حضرات کے دل میں موجزن رہتے ہیں۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے جو اس وقت ان کے اور قادیان کے درمیان حائل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رکاوٹ پاکستان اور ہندوستان کی علیحدگی ہے اور یہ علیحدگی اسی صورت میں دور ہوسکتی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان پھر سے ایک ہو جائیں۔ یا یہاں انہیں ایسی سیاسی پوزیشن حاصل ہو جائے کہ یہ اس باب میں بھارت کے ساتھ براہ راست معاملہ طے کرسکیں۔ ویٹکن کے انداز کی ریاست قائم کرنے کا تصور اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ حضرات ویٹکن ریاست تک ہی محدود نہیں رہنا چاہتے۔ ان کے عزائم اس سے وسیع تر ہیں۔ اس سلسلے میں مرزامحمود احمد قادیانی نے بہت پہلے کہہ دیا تھا۔
’’حکومت والوں کو حکومتیں مبارک ہوں۔ ہم ان کو آسمانی پیغام پہنچا کر دین واحد پر جمع کریںگے اور ظاہر ہے کہ ان کے دین واحد پر جمع ہونے کے یہی معنی ہیں کہ دنیا میں اسلام کی حکومت قائم ہوجائے اور سلسلہ احمدیہ کے افراد اس حکومت کے چلانے والے ہوں۔‘‘
(الفضل بابت ۲؍اگست ۱۹۳۶ئ)
یعنی پہلے ایک خط زمین میں ایسی حکومت قائم کی جائے جس کے چلانے والے سلسلہ احمدیہ کے افراد ہوں اور اس کے بعد ساری دنیا میں یہی کیفیت پیدا کر دی جائے۔ میاں محمود احمد قادیانی کے الفاظ میں: ’’ہماری جماعت کی بنیاد ہی اس پر ہے کہ دنیا کو کھا جانا ہے۔‘‘
(الفضل بابت ۷؍اپریل ۱۹۳۸ئ)
مسلمانوں کو بیت المقدس بھی نہیں مل سکتا
ضمناً اپنے لئے تو یہ حضرات ساری دنیا پر حکومت کا عزم رکھتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو بیت المقدس کی تولیت کا بھی حقدار نہیں سمجھتے۔ چنانچہ انہوں نے آج سے بہت پہلے اس کا فیصلہ کر دیا تھا کہ: ’’اگر یہودی اس لئے بیت المقدس کی تولیت کے مستحق نہیں کہ وہ جناب مسیح اور حضرت نبی اکرمﷺ کی رسالت ونبوت کے منکر ہیں اور عیسائی اس لئے غیر مستحق ہیں کہ انہوں نے خاتم النبیین کی نبوت ورسالت کا انکار کر دیا ہے تو یقینا غیر احمدی بھی مستحق تولیت بیت المقدس نہیں۔ کیونکہ یہ بھی اس زمانے میں مبعوث ہونے والے خدا کے ایک اولوالعزم نبی کے منکر اور مخالف ہیں