یہ تو ہم ذرا آگے چل کر دیکھیں گے کہ ’’ٹھوکر کس کس کو لگی ہے‘‘ سردست اتنا دیکھئے کہ ایک شخص کا دعویٰ یہ ہے کہ اسے خدا کی طرف سے وحی ملتی ہے اور اس کے دعاوی کی بنیاد وحی پر ہے۔ لیکن وہ شخص جو دعویٰ کرتا ہے ان کی بنیاد مجوسی نظریات پر ہے۔ جو یکسر قرآن کے خلاف ہے۔ علامہ اقبالؒ کے الفاظ ہیں۔ ’’احمدیت کے ماخذ اور اس امر کی بحث کہ قبل اسلام مجوسی تصورات نے اسلامی تصوف کے ذریعے احمدیت کے ذہن کو کس طرح متأثر کیا۔ مذہب متقابلہ کی نگاہ سے بے حد دلچسپ ہوگی۔‘‘ (احمدیت اور اسلام ص۲۶)
اور یہ بھی دیکھئے کہ وہ جو ہم نے پہلے کہا ہے کہ ہمارے ہاں کا تصوف، مدعان نبوت کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔ وہ کس قدر صحیح ہے۔ مرزاقادیانی کے ان دعاوی کی سند صوفیاء کرام ہیں۔ لیکن یہ تو راستے کا مقام ہے۔ آپ دیکھئے کہ اس کے بعد مرزاقادیانی کیا کیا دعویٰ کرتے ہیں۔
واحد نبی
اس وقت تک یہ کہا جارہا تھا کہ نبی اکرمﷺ کا خاتم الانبیاء ہونا اس معنی میں ہے کہ آپ کے اتباع سے آپ کے امتی، منصب نبوت تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد کہا: ’’اس امت میں… نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا ہوں اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں… اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا وہ پیش گوئی پوری ہو جائے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶،۴۰۷)
اس سے پہلے دعویٰ یہ تھا کہ مرزاقادیانی امتی نبی ہیں۔ لیکن اب کہاگیا کہ مرزاقادیانی کو امتی سمجھنا کفر ہے۔ چنانچہ الفضل (قادیان) کی اشاعت بابت ۲۹؍جون ۱۹۱۵ء میں لکھا ہے۔ ’’مسیح موعود کو احمد نبی اﷲ تسلیم نہ کرنا اور آپ کو امتی قرار دینا یا امتی گروہ میں سمجھنا گویا آنحضرتﷺ کو جو سید المرسلین اور خاتم النبیین ہیں امتی قرار دینا اور امتیوں میں داخل کرنا ہے جو کفر عظیم اور کفر بعد کفر ہے۔‘‘
آخری نبی
اوپر لکھا گیا ہے کہ مرزاقادیانی نے کہا ہے کہ نبی کا نام صرف ان کے لئے مختص ہے۔ کسی دوسرے کو حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے آپ کو نبی کہلائے۔ اس کے بعد کہا کہ اتنا ہی نہیں کہ اس دور میں صرف میں ہی نبی کہلانے کا مستحق ہوں۔ بلکہ یہ کہ میں آخری نبی ہوں۔ مرزاقادیانی کے الفاظ ہیں: ’’ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا مبارک ہے۔ وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور اس کے سب نوروں میں سے