لطیف ومترنم الفاظ کا انتخاب ذوق سلیم کا کام ہے۔ ادبی مذاق، جتنا بلند ہوگا۔ انتخاب اتنا ہی اچھا ہوگا۔ اس سلسلے میں مولانا ابوالکلام آزاد کو ید طولیٰ حاصل ہے۔ ایسے ہلکے پھلکے، شیریں اور متبسم الفاظ چنتے ہیں کہ صفحۂ قرطاس دامان گل فروش بن جاتا ہے۔ یہی حال ندیم واختر شیرانی کا ہے۔ میں ان کی نظمیں پڑھتا ہوں تو یوں محسوس کرتا ہوں۔ گویا غم کی دیوی ستار بجارہی ہے اور فضائیں ترانے انڈیل رہی ہیں۔ کیا یہی کیف وسرور مرزاقادیانی کے ہاں بھی موجود ہے؟ نہیں۔ وہاں ادبی رنگینیاں نام کو نہیں۔ وہی علمائے مکاتب کا کھردرا سٹائل۔ لمبے لمبے غیر مربوط جملے اور ثقیل الفاظ۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
’’جب ہم اپنے نفس سے بکلی فنا ہوکر درد مند دل کے ساتھ لایدرک وجود میں ایک گہرا غوط مارتے ہیں تو ہماری بشریت الوہیت کے دربار میں پڑنے سے عند العود کچھ آثار وانوار اس عالم کے ساتھ لے آتی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۴۳۱، خزائن ج۳ ص۳۲۸)
’’ان کی اخلاقی حالت ایک ایسے اعلیٰ درجہ کی جاتی ہے جو تکبر اور نحوست اور کمینگی اور خود پسندی اور ریاکاری اور حسد اور بخل اور تنگ دلی سب دور کی جاتی ہے اور انشراح صدر اور بشاشت عطاء کی جاتی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۴۴۵، خزائن ج۳ ص۳۳۶)
’’اور نیز بباعث ہمیشہ کے سوچ بچار اور مشق اور مغز زنی اور استعمال قواعد مقررۂ ضاعت منطق کے بہت سے حقائق علمیہ اور دلائل یقینہ اس کو مستحضر ہوگئے ہیں۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ سوم ص۱۴۱، خزائن ج۱ ص۱۴۶)
آپ کا اسلوب بیان ازسرتاپا سست بندشوں، غیر مربوط جملوں اور ثقیل ترکیبوں کا ایک غیر مختتم سلسلہ ہے۔
۳…تکرار الفاظ
علمائے وضاحت کا یہ فیصلہ ہے کہ ایک ہی لفظ کا باربار اعادہ کلام کو پایۂ فصاحت سے گرادیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لطیف المذاق شعراء ایک غزل میں کسی قافیہ کو دوبارہ نہیں باندھتے اور جہاں تک ممکن ہو کسی جملے میں ایک ہی لفظ کے اعادہ سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ ہاں بعض مقامات پر ترنم یا زور پیدا کرنے کے لئے ایک لفظ کو دہرایا جاتا ہے۔ مثلاً:
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں (غالب)