اور آگے بڑھئے۔ اسی کتاب (حقیقت الوحی) میں ذرا آگے چل کر مرزاقادیانی نے بات اور بھی واضح کر دی ہے۔ (جیسا کہ پہلے بھی لکھا جاچکا ہے) وہ کہتے ہیں: ’’کفر دو قسم پر ہے۔ ایک کفریہ ہے کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرتﷺ کو رسول نہیں مانتا۔ دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے۔ جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لئے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے۔ کافر ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۷۹، خزائن ج۲۲ ص۱۸۵)
اسی بناء پر مرزاقادیانی نے کہا تھا کہ انہیں خدا کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ: ’’جو تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے۔‘‘ (اشتہار معیار الاخیار مورخہ ۲۵؍مئی ۱۹۰۰ء ص۸، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۷۵)
مرزاقادیانی کے ان بیانات اور الہامات کی روشنی میں دیکھئے کہ لاہوری جماعت کا یہ دعویٰ کہ مرزاقادیانی کو مسیح موعود نہ ماننے سے کوئی شخص کافر نہیں ہوجاتا۔ کس قدر فریب دہی ہے۔
قول فیصل
آخر میں ہم ایک ایسا نکتہ سامنے لانا چاہتے ہیں جو اس باب میں حرف آخر اور قول فیصل کا حکم رکھتا ہے۔ مرزاقادیانی کا یہ فیصلہ ہے جسے لاہوری جماعت اپنے ہاں باربار دہراتی رہتی ہے کہ: ’’ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور نہ کم ہوسکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا الہام منجانب اﷲ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقان کی ترمیم وتنسیخ یا کسی ایک حکم کی تبدیلی یا تغیر کر سکتا ہو اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مؤمنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۱۳۷، ۱۳۸، خزائن ج۳ ص۱۷۰)
اور یہ قرآن کریم کے ارشاد کے عین مطابق ہے جس نے کہا ہے کہ: ’’لا مبدل لکلمتہ (الانعام:۱۱۶)‘‘ {احکام خداوندی کو کوئی بدل نہیں سکتا۔} جیسا کہ پہلے بھی لکھا جاچکا ہے۔ یوں تو قرآن کریم کا ہر (چھوٹا بڑا) حکم، حکم خداوندی ہے اور مرزاقادیانی کے مندرجہ بالا فیصلہ کا ان سب پر یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن قرآن کریم