چہارم… قیام امن کے لئے ہر سلطنت میں آئے دن چند شورش پسند اٹھ کر امن وامان کو تہ وبالا کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے لڑنا بھی فرض ہے۔ ’’وقاتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ (البقرہ:۱۹۳)‘‘ {تم اس وقت لڑو کہ ملک سے بدامنی دو ہو جائے۔}
ان چار صورتوں کے علاوہ اسلام نے کسی اور تنازعہ میں جہاد کی اجازت نہیں دی۔ مرزاقادیانی کا یہ ارشاد تو درست ہے کہ تبلیغ مذہب کے لئے تلوار کا استعمال ناجائز ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جہاد کو مطلقاً حرام کر دیا جائے۔ مرزاقادیانی بار بار فرماچکے ہیں کہ قیامت تک قرآن کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں ہوگا۔ ’’ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماویہ ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع… سے زیادہ نہیں ہوسکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے۔‘‘ (ازالہ حصہ اوّل ص۱۳۷، خزائن ج۳ ص۱۷۰)
تو پھر جہاد کو حرام کرنے کا جواز کہاں سے نکلتا ہے اور وہ بھی انگریز کے خلاف جس نے تمام ممالک اسلامی کو یکے بعد دیگرے تباہ کیا۔ پچاس کھرب روپیہ سے زیادہ کی دولت زبردستی چھین لی۔ پچاس سے زیادہ تخت لے چکا۔ لاکھوں عصمتوں کا دامن چاک کیا۔ کروڑوں انسانوں کو شراب وعیاشی کا خوگر بنایا۔ فرمائیے کیا ایسی قوم کے خلاف تلوار اٹھانا ناجائز نہیں۔ کیا انہیں اجازت ہے کہ یہ ایران کو لوٹیں۔ عراق کی دولت گھسیٹ کر گھر لے جائیں۔ سات لاکھ عربوں کو فلسطین سے باہر دھکیل دیں۔ مصر کے لئے مستقل خطرہ بنے رہیں اور ان کے ریڈکلف اور مونٹ بیٹن پاکستان کو ہمیشہ مصائب میں مبتلا رکھیں؟ اور مظلوم کو یہ بھی اجازت نہیں کہ وہ اپنا بچاؤ تک کر سکے؟
جہاد حرام؟
یہ درست کہ انگریز کے زمانے میں ان کے خلاف اعلان جہاد خلاف مصلحت تھا۔ اس لئے کہ ہمارے پاس ٹوٹی ہوئی لاٹھی بھی نہیں تھی۔ لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑا ہی ہے کہ جو بات عارضی طور پر خلاف مصلحت ہو وہ حرام ہوجاتی ہے۔ حضورﷺ کے لئے مکی زندگی میں جہاد خلاف مصلحت تھا، حرام نہیں تھا۔ لیکن مرزاقادیانی کی بعض تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جہاد کو مطلقاً حرام سمجھتے تھے۔ مثلاً: ’’میں نے مخالفت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابیں تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچادی ہیں۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں… اور جہاد