اور چند سال پیشتر مرزاقادیانی نے ایک ایسے ہی پیش گوئی کے متعلق فرمایا تھا۔ ’’اگر تمہارے مرد اور عورتیں تمہارے جوان اور بوڑھے، تمہارے چھوٹے اور بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں۔ یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں۔ تب بھی خدا ہرگز تمہاری دعا نہیں سنے گا۔‘‘ (اربعین نمبر۳ ص۱۴، خزائن ج۱۷ ص۴۰۰)
مقابلہ کی صورت بالکل صاف ہوگئی کہ ڈاکٹر نے کہا مرزاقادیانی کی وفات ۴؍اگست ۱۹۰۸ء سے پہلے ہوگی۔ مرزاقادیانی نے فرمایا کہ اﷲ نے مجھے لمبی عمر کی بشارت دی ہے کہ نیز کہا ہے کہ: ’’میں ان سب کو جھوٹا کروںگا۔ خدا صادق کی مدد کرے گا۔‘‘
لیکن ہوا کیا؟ یہی کہ صرف چند روز بعد مرزاقادیانی کا انتقال ہوگیا اور ڈاکٹر برسوں بعد زندہ رہا۔ قدرتاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کا وہ وعدہ کیا ہوا۔ ’’اپنے دشمن سے کہہ دے۔ خدا تجھ سے مواخذہ کرے گا اور تیری عمر کو بڑھاؤں گا۔ ان سب کو جھوٹا کروںگا۔‘‘
برا منانے کی بات نہیں۔ مؤرخ اور محقق کی تنقید ہمیشہ بے لاگ ہوتی ہے۔ وہ صرف حقائق سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے شخصی عقائد اور قاری کے تصورات کیا ہیں۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو صرف حقیقت کے متلاشی اور حقیقت کے پرستار ہیں۔ احمدیوں میں میرے دوستوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے۔ ایسے دوست جن سے میں محبت کرتا ہوں۔ میری یہ دلی تمنا ہے کہ ان میں اور مجھ میں کوئی ذہنی اختلاف بھی باقی نہ رہے اور اس کی صورت صرف یہی ہے کہ وہ میرے پیش کردہ حقائق پر غور کرنے کے بعد صحیح نتائج اخذ کریں۔ اگر میرے پیش کردہ حقائق حقائق نہیں ہیں تو میری لغزش کو واضح فرمائیں۔ مجھے سچائی سے فطری محبت ہے۔ جہاں ملے گی فوراً اپنالوںگا۔ خواہ اس راہ میں مجھے کتنی ہی دشواریاں پیش آئیں۔
انسان اسی وقت تک انسان ہے جب تک اس کا رشتہ حقیقت سے قائم ہے۔ اگر یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو انسانیت اہرمنیت میں بدل جاتی ہے۔ کون ہے جو حقیقت سے گریزاں اور باطل کا پرستار ہو۔ اگر کوئی ہے تو اسے کہہ دو کہ وہ دنیا میں تنہا ہے اور اس کا کوئی ہم خیال موجود نہیں۔
’’قبول دعائ‘‘ کے دو واقعات آپ نے پڑھ لئے۔ اب چلئے نئے موضوع کی طرف۔
فہم قرآن
قرآن حکیم تمام زمانوں اور تمام قوموں کے لئے جو قیامت تک پیدا ہوںگی مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کے الفاظ میں لچک ہے اور ہونی بھی چاہئے۔ تاکہ ہر زمانے کا انسان خواہ