اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ میں خاص طور پر اﷲتعالیٰ کے اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں۔ کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دیتا ہے۔‘‘ (نزول المسیح ص۵۶، خزائن ج۱۸ ص۴۳۴)
ہم (ارباب ذوق سے بصد معذرت) مرزاقادیانی کی معجزانہ انشا پردازی کی صرف ایک مثال پر اکتفاء کرتے ہیں۔ وہ (اپنے ایک دوست کے نام) ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ایک انگریزی وضع کا پاخانہ جو ایک چوکی ہوتی ہے اور اس میں ایک برتن ہوتا ہے۔ اس کی قیمت معلوم نہیں۔ آپ ساتھ لاویں۔ قیمت یہاں سے دے دی جائے گی۔ مجھے دوران سر کی بہت شدت سے مرض ہوگئی ہے۔ پیروں پر بوجھ دے کر پاخانہ پھر نے سے مجھے سرکو چکر آتا ہے۔‘‘
(مجموعہ مکتوبات مرزاغلام احمد بنام حکیم محمد حسین قریشی ص۶)
واضح رہے کہ احمدی حضرات مرزاقادیانی کو سلطان القلم کہتے ہیں۔
اضافہ … طبع دوم
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن اکتوبر ۱۹۷۴ء کے آخری ہفتہ میں شائع ہوا۔ ﷲ الحمد کہ اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور چند دنوں کے اندر ملک کے دور دراز گوشوں تک پھیل گئی۔ اس اثناء میں قارئین کی طرف سے (تحسین وتبریک کے خطوط وپیغامات کے علاوہ) بہت سے مشورے، تجویزیں، مطالبے اور تقاضے موصول ہوئے۔ ان کی روشنی میں کتاب کے اس دوسرے ایڈیشن میں مختصر سا اضافہ ضروری سمجھا گیا ہے جو درج ذیل ہے۔ مجھے تو کچھ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کتاب کے ہر نئے ایڈیشن میں شاید اسی قسم کے مزید اضافوں کی ضرورت لاحق ہو۔ سردست موجودہ اضافہ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
مرزاقادیانی کی ذہنی کیفیت
حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نظام خداوندی کے پیغامبر ہوتے تھے اور ان کا مشن انسانی دنیا میں عظیم انقلاب برپا کرنا۔ اس کے لئے (علاوہ وحی آسمانی کے) عصری علوم وحقائق پر ان کی نگاہ بڑی وسیع اور غائر ہوتی تھی۔ اس کے بغیر وہ اپنے مشن کو سرانجام نہیں دے سکتے تھے۔ بنابریں ان کی فکر بڑی بلند بصیرت بڑی عمیق اور نگاہ بڑی تابناک ہوتی تھی۔ ان کے برعکس مرزاقادیانی کی دماغی کیفیت کیا تھی۔ اس کا اندازہ دو ایک مثالوں سے لگ سکتا ہے۔
۱… اپنی صحت کے متعلق مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’میں ایک دائم المرض آدمی ہوں… ہمیشہ درد سر اور دوران سر اور کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری دورہ کے ساتھ آتی ہے اور