ہم جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی تمیز وتفریق میں نہیں الجھنا چاہتے۔ قرآن کریم میں ایسی کوئی تفریق نہیں۔ ان حضرات کو بہرحال یہ تسلیم ہے کہ مرزاقادیانی نے تلوار کے جہاد کو منسوخ قرار دیا تھا۔ تلوار کے جہاد کا حکم قرآن مجید میں موجود ہے اور ایک جگہ نہیں، متعدد مقامات میں موجود ہے اور مرزاقادیانی نے فرمایا تھا کہ: ’’اب کوئی ایسی وحی یا الہام منجانب اﷲ نہیں ہوسکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کی تبدیلی یا تغیر کر سکتا ہو اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مؤمنین سے خارج اور ملحد اور کافر ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۸، خزائن ج۳ ص۱۷۰)
قرآن کریم کے حکم کو منسوخ قرار دینے کی بناء پر مرزاقادیانی خود اپنے فیصلے کے مطابق ’’جماعت مؤمنین سے خارج ملحد اور کافر‘‘ قرار پاجاتے ہیں۔ لہٰذا انہیں مامور من اﷲ، مجدد، مسیح موعود وغیرہ تسلیم کرنا تو ایک طرف، انہیں مسلمان بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نہ صرف انہیں بلکہ جو شخص انہیں مسلمان تسلیم کرے خود اسے بھی مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ان تصریحات سے واضح ہے کہ احمدی حضرات (خواہ قادیانی ہوں اور خواہ لاہوری) مرزاقادیانی کے دعاوی کو سچا سمجھنے کی بناء پر دائرہ اسلام سے خرج قرار پاجاتے ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے اس جگہ اور اس سے پہلے بھی کئی ایک مقامات پر کہا ہے کہ ان دلائل کی رو سے جو متعلقہ مقامات میں پیش کئے گئے ہیں۔مرزاقادیانی اور ان کے متبعین، امت محمدیہ کے افراد (مسلمان) تسلیم نہیں کئے جاسکتے۔ یہ قرآنی بصیرت کے مطابق ہماری اپنی رائے ہے جو قول فیصل کی حیثیت نہیں رکھ سکتی۔ اصل یہ ہے کہ کسی فرد یا افراد کی جماعت کو یہ حق ہی حاصل نہیںہوتا کہ وہ کسی کے کفر واسلام کے متعلق فیصلہ کرے۔ وہ صرف اپنی رائے پیش کر سکتا ہے۔ اس کا حق صرف اسلامی مملکت کو حاصل ہوتا ہے جو آئینی طور پر فیصلہ کرتی ہے کہ مسلم کون ہے اور غیر مسلم کون؟
آئیے ہم دیکھیں کہ آئین پاکستان کی رو سے احمدیوں کی پوزیشن کیا ہے۔
آٹھواں باب … آئینی پوزیشن
مرزاقادیانی نے اپنی اٹھائیس سالہ زندگی بحیثیت داعی میں جو مختلف دعوے کئے ان کی تفصیل گذشتہ صفحات میں آپ کے سامنے آچکی ہے۔ چونکہ وہ دعاوی مختلف صفحات پر بکھرے ہوئے ہیں۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ مختصر الفاظ میں انہیں یکجا کر دیا جائے۔ تاکہ بیک نظر پوری تصویر سامنے آجائے۔ ان کی دعاوی کی فہرست یوں مرتب ہوتی ہے۔