آنے والے کا عقیدہ
اب ایک قدم آگے بڑھئے۔ ختم نبوت کا عقیدہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں تھا۔ اس لئے ان میں سے ہر ایک کے ہاں ایک آنے والے کا عقیدہ پیدا ہوگیا۔ یہودیوں نے کہا کہ ایک مسیحا آئے گا جو ان کی تمام مصیبتوں کو حل کر دے گا۔ عیسائیوں نے کہا کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں۔ وہ آخری زمانے میں آئیںگے اور عیسائیت کا غلبہ قائم کردیںگے۔ ہندو، آخری زمانے میں کلنکی اوتار کے منتظر ہیں۔ بدھ مت کے پیرو متیا بدھ کے منتظر، مجوسی (پارسی) بھی عیسائیوں کی طرح اپنے نبی مترا کو زندہ آسمان پر تصور کرتے اور آخری زمانے میں اس کی آمد کے منتظر ہیں۔ انہوں نے اس باب میں (عیسائیوں کے مقابلہ میں) اتنی تبدیلی کی کہ وہ آنے والا وہی پہلا مترا نہیں ہوگا۔ اس کا ظل یا بروز یا مثبل ہوگا۔ قرآن آیا اور اس نے ان تمام مذاہب سے پکار کر کہہ دیا کہ تم جس آنے والے کے انتظار میں ہو وہ رسول ’’کافۃ للناس‘‘ آگیا ہے۔ یہی تمہارا انجام دہندہ ہے۔ اسی کے اتباع سے اس دین کو غلبہ حاصل ہوگا۔ جسے تمہارے نبی نے اصل شکل میں پیش کیا تھا۔ اس نبی آخر الزمان نے وہ سب کچھ کر کے دکھا دیا جس کے دیکھنے کے وہ لوگ منتظر تھے۔ وہ اپنے مشن کی تکمیل کے بعد دنیا سے تشریف لے جانے والے تھے تو خدا نے اعلان کر دیا کہ اب ہماری طرف سے کوئی نہیں آئے گا۔ اس لئے تمہیں کسی آنے والے کا انتظار نہیں کرنا ہوگا۔ جو راہنمائی ہم نے دینی تھی اسے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں مکمل کر کے محفوظ کردیا اور اس رسولؐ نے اس پر عمل کر کے دکھادیا۔ اب اس مشعل آسمانی کی روشنی اور اس رسولؐ کے اسوۂ حسنہ کے اتباع میں تم نے اپنی زندگی کی راہیں آپ قطع کرنی ہوںگی۔ اب تم جوان ہوگئے ہو۔ اگر کسی مقام پر تمہارا پاؤں پھسل گیا تو تمہیں ہمت کر کے خود ہی اٹھنا ہوگا۔ اب تمہاری انگلی پکڑ کر اٹھانے والا کوئی نہیں آئے گا۔
مجدد، مہدی، مسیح
یہ ہے ختم نبوت کی اہمیت کا دوسرا گوشہ یعنی اس سے انسان میں خود اعتمادی پیدا کر دی۔ خدا نے تو یہ اعلان کیا۔ لیکن ہم نے دوسرے اہل مذاہب کی طرح اپنے ہاں بھی آنے والے کا عقیدہ وضع کر لیا۔ ہر صدی کے آخر ایک مجدد، آخری زمانہ میں امام مہدی اور ان کے ساتھ آسمان سے نازل ہونے والے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہم نے ان مجددین اور امام مہدی کو نبی تو نہ کہا کہ اس سے ہمارے دل میں کھٹکا پیدا ہوتا تھا کہ یہ بات عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف ہوگی۔ لیکن درحقیقت ہم نے انہیں بھی اسی بنیادی خصوصیت کا حامل قرار دے دیا۔ جو خاصۂ نبوت تھی۔ یعنی