، تقریروں میں ہر جگہ حضورﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ خاتم النبیین ملے گا۔ جب عام مسلمان ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نبی اکرمﷺ کو خاتم النبیین تسلیم نہیں کرتے تو یہ دھڑلے سے جواب دیتے ہیں کہ یہ تمہارے مولویوں کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے۔ تم دیکھتے نہیں کہ ہم کس طرح ایک ایک سانس میں حضور نبی اکرمﷺ کے لئے خاتم النبیین کا لقب استعمال کرتے ہیں۔ ان کایہ جواب عوام کو خاموش کر دینے کا بڑا کامیاب حربہ ہوتا ہے۔
آپ دیکھ چکے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی ہیں۔ وہ آخری نبی جس کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ لیکن احمدی حضرات کے نزدیک اس کے معنی ہیں۔ وہ نبی جس کی مہر سے مرزاقادیانی نبی بن گئے تھے۔ لہٰذا جب احمدی حضرات کے نزدیک اس کے یہ معنی ہیں تو اس سے ان کا مفہوم اپنا ہوتا ہے۔ الفاظ وہی مفہوم نہ صرف الگ بلکہ مسلمانوں کے مفہوم کے یکسر خلاف۔ سنئے کہ اس باب میں احمدیوں کے خلیفۂ اوّل حکیم نور الدین صاحب کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’رہی یہ بات کہ آنحضرتﷺ کو قرآن مجید میں خاتم النبیین فرمایا۔ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہمارا یہ مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین تسلیم نہ کرے تو بالاتفاق کافر ہے۔ یہ جدا امر ہے کہ ہم اس کے کیا معنی کرتے ہیں اور ہمارے مخالف کیا۔‘‘
(ارشاد حکیم نورالدین قادیانی مندرجہ نہج المصلے ج اوّل ص۲۷۵)
اس کی مزید وضاحت ان الفاظ میں ملتی ہے۔ ’’ہم تو جیسے پہلے آنحضرتﷺ کی ختم نبوت کے قائل تھے۔ ویسے ہی اب بھی ہیں اور ختم نبوت کے ساتھ ہی مرزاقادیانی کی نبوت بھی قائم ہے۔ اگر آنحضرتﷺ خاتم النبیین ہیں تو حضرت مرزاقادیانی بھی نبی ہیں۔ گویا ختم نبوت اور مسیح موعود کی نبوت لازم وملزوم ہیں۔ ہمارے جلسوں، تحریروں اور تقریروں اور یہاں تک کہ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اﷲ بنصرہ سے بیعت کے اقراری الفاظ میں بھی خاتم النبیین کا اقرار مقدم رکھاگیا ہے۔‘‘ (الفاروق، قادیان مورخہ ۲۸؍فروری ۱۹۳۵ئ)
آپ نے پیچ ملاحظہ فرمالئے۔
الہامات کا نمونہ
ہم نے شروع میں کہا ہے کہ ہم اپنی اس کتاب کوعلمی دائرہ تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے ہم نے مرزاقادیانی کے الہامات کا تذکرہ نہیں کیا۔ کیونکہ وہ علمی گفتگو کا موضوع بن نہیں سکتے۔ لیکن چونکہ قارئین کو تجسس ہوگا کہ جس شخص نے نبوت رسالت کا دعویٰ کیا ہے۔ دیکھنا چاہئے کہ اس کے الہامات کس قسم کے تھے۔ اس لئے ہم ان کی تسکین کاوش کے لئے مرزاقادیانی کے