۱۴… ’’جس قدر انسانی روح اپنے کمالات ظاہر کر سکتا ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۱۰، خزائن ج۲۳ ص۱۸)
روح مؤنث ہے۔
۱۵… ’’اگر ان میں ایک ذرہ تقویٰ ہوتی۔‘‘ (آسمانی فیصلہ ص۴، خزائن ج۴ ص۳۱۴)
تقویٰ مذکر ہے۔
۱۶… ’’بہشت ایسا ہے۔‘‘ (شہاد ت القرآن ص۵۳، خزائن ج۶ ص۳۴۹)
بہشت مؤنث ہے۔
۹…جمع ومفرد
اگر فاعل جمع ہو تو فعل کا جمع ہونا ضروری ہے۔ لیکن مرزاقادیانی اس پابندی کے بھی قائل نہیں تھے۔ بطور نمونہ کے امثلۂ ذیل میں خط کشیدہ حصص کو دیکھئے۔
۱… ’’اب جس قدر میں نے پیش گوئیاں بیان کی ہیں۔ صدق یا کذب کے آزمانے کے لئے یہی کافی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۳۵، خزائن ج۳ ص۴۴۳)
۲… ’’ایک مکھی کے خواص اور عجائبات کی قیامت تک تفشیش کرتے جائیں تو وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۷۷، خزائن ج۳ ص۴۶۵)
۳… ’’خدا کے مامورین کے آنے کے بھی ایک موسم ہوتے ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۱۵، خزائن ج۱۷ ص۴۰۱)
۱۰…الفاظ کا غلط استعمال
مرزاقادیانی نے بعض مقامات پر الفاظ کا غلط استعمال فرمایا ہے۔ مثلاً:
۱… ’’صرف کوے کی طرح یا بھیڈی کی مانند ایک نجاست کو ہم حلوا سمجھتے رہیںگے… صرف لونبڑی کی طرح داؤ پیچ بہت یاد ہوںگے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۴۳۱، خزائن ج۳ ص۳۲۸)
اردو میں بھیڈی اور لونبڑی کی جگہ بھیڑ اور لومڑی استعمال ہوتے ہیں۔ بھیڈی تو کوئی لفظ ہی نہیں۔ ہاں لونبڑ ایک لفظ ہے جس کے معنی فیروز الغات میں لمبڑ یعنی دراز قد دئیے ہوئے ہیں۔
۲… ’’ان کو ان اعمال صالحہ کے بجا لانے کی قوت دی جاتی ہے جو دوسرے ان میں کمزور ہوتے ہیں۔‘‘ (ازالہ ص۴۴۵، خزائن ج۳ ص۳۳۶)