’’اے احمقو! یہ پیش گوئی کسی خبیث مفتری کا کاروبار نہیں۔ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں ٹل نہیں سکتیں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸)
’’اور بدخیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئیوں سے بڑھ کر کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۱ ص۱۱۸، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۹)
۲…ڈپٹی آتھم
جون ۱۸۹۳ء کا واقعہ ہے کہ امرتسر کے مقام پر ایک زبردست مباحثہ ہوا۔ عیسائیوں کی طرف سے عبداﷲ آتھم تھے اور دوسری طرف مرزاقادیانی۔ پندرہ دن تک یہ مباحثہ جاری رہا۔ مباحثہ کا موضوع تثلیث تھا۔ آخری دن مرزاقادیانی نے ایک اہم اعلان فرمایا۔ جس کے الفاظ یہ تھے۔ ’’آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعاء کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں۔ تیرے فیصلے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے۔ وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے۔ اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب یہ پیش گوئی ظہور میں آئے گی۔ بعض اندھے سوجاکھے کئے جائیںگے اور بعض لنگڑے چلنے لگیںگے اور بعض بہرے سننے لگیںگے۔‘‘ (پیش گوئی ۵؍جون ۱۸۹۳ئ، مندرجہ جنگ مقدس ص۲۱۰، خزائن ج۶ ص۲۹۲) پیش گوئی کا خلاصہ یہ نکلا کہ جو فریق عاجز انسان (مسیح) کو خدا بنارہا ہے وہ پندرہ ماہ (یعنی ۴،۵؍ستمبر ۱۸۹۴ئ) تک ہاویہ میں گرایا جائے گا۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ اس پیش گوئی میں دو لفظ تشریح طلب ہیں۔ ہاویہ اور حق، ہاویہ کی تشریح خود مرزاقادیانی یوں فرماتے ہیں۔ ’’بشرنی ربی بعد دعوتی بموتہ الیٰ خمسۃ عشرا شہر من یوم خاتمۃ البحث‘‘ میری دعاء کے بعد اﷲ نے مجھے بتایا کہ آتھم خاتمۂ بحث کے بعد پندرہ ماہ کے اندر مر جائے گا۔ (کرامات الصادقین اتمام الحجۃ علی المکفرین ص۳، خزائن ج۷ ص۱۶۳)
یاد رکھئے کہ ہاویہ کی تشریح خدائی ہے۔ بشرنی ربی جو اﷲ نے بتائی ہے۔ باقی رہا لفظ حق تو پیش گوئی کے یہ الفاظ پھر پڑھئے۔ ’’جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا