۔ تب بھی یہ ۷۵،۷۶ ہزار آدمی بن جاتے ہیں اور اگر ایک احمدی سو کے مقابلہ میں رکھا جائے تو ہم ۷۵لاکھ کامقابلہ کر سکتے ہیں اور اگر ایک ہزار کے مقابل پر ہمارا ایک آدمی ہو تو ہم ساڑھے سات کروڑ کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اتنی ہی تعداد دنیا کے تمام مسلمانوں کی ہے؟ پس سارے مسلمان مل کر بھی جسمانی طور پر ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتے اور اﷲتعالیٰ کے فضل سے ہم ان پر بھاری ہیں۔ پھر آجکل تو جسمانی مقابلہ ہے ہی نہیں۔ اس لئے اس لحاظ سے بھی ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
(الفضل قادیان نمبر۵۲ ج۷ ص۷، ۲۱؍جون ۱۹۳۴ئ)
یہاں دو تین باتیں قابل غور ہیں۔ قرآن کریم کا جو حوالہ اوپر دیاگیا ہے۔ وہاں جماعت مؤمنین کی کفار کے ساتھ جنگ کا ذکر ہے۔ اس اعتبار سے میاں محمود قادیانی اپنی جماعت کو مؤمنین کہتے ہیں اور مسلمانوں کو کفار کی جماعت اور یہی ان کے نزدیک مسلمانوں کی پوزیشن ہے۔ دوسرے یہ کہ ان حضرات کے عقیدہ کی رو سے مسلمانوں کا انگریزوں کے خلاف جہاد تو حرام ہے۔ لیکن یہ خود اپنی جماعت کو مسلمانوں کے خلاف جہاد (قتال بالسیف) کی تلقین کر رہے ہیں۔
اور تیسرے یہ کہ ان کے مبلغ علم کی کیفیت یہ ہے کہ یہ (۱۹۳۴ء میں) تمام دنیا کے مسلمانوں کی آبادی ساڑھے سات کروڑ بتاتے ہیں۔
اقتباس کے آخر میں کہاگیا ہے کہ: پھر آج کل تو جسمانی مقابلہ ہے ہی نہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ آجکل جنگ کا دارومدار افراد کی تعداد پر نہیں۔ اسلحہ پر ہے۔ اس سلسلہ میں الفضل بابت۲؍مئی ۱۹۳۵ء کا حسب ذیل بیان قابل غور ہے۔
’’حضور (یعنی میاں محمود قادیانی) نے فرمایا کہ جو اصحاب بندوق کا لائسنس رکھ سکتے ہیں۔ وہ بندوق کا لائسنس حاصل کریں اور جہاں جہاں تلوار رکھنے کی اجازت ہے وہاں تلوار رکھیں۔ لیکن جہاں اس کی ضرورت نہ ہو وہاں لاٹھی ضرور رکھیں۔‘‘
احمدی جماعت
یہ تھا وہ اضافہ جسے قارئین کے تقاضوں اور مطالبوں کے پیش نظر ضروری سمجھا گیا۔ اب کتاب کے تسلسل کے اعتبار سے اگلے باب کی طرف آجائیے۔ اس بات میں ہم نے بتایا ہے کہ مرزاقادیانی نے ایک نئی امت کی تشکیل کی اور اسے مسلمانوں سے الگ قرار دیا۔ ہم نے اس سے پہلے لکھا ہے کہ اس جماعت کا نام (احمدی جماعت) خود مرزاقادیانی کے نام پر رکھاگیا تھا۔ احمدی حضرات جو کہتے ہیں کہ یہ نام نبی اکرمﷺ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہ ان کی مغالطہ آفرینی اور فریب دہی ہے۔ اس سلسلہ میں صاحبزادہ بشیر احمد نے اپنے مقالہ کلمتہ الفصل میں لکھا تھا: ’’ان