حدیث قرار دے کر میری مخالفت کرتے ہیں۔ یہ اس لئے نہیں کہ انہیں ارشادات نبویﷺ سے اس قدر عقیدت ہوتی ہے۔ بلکہ اس لئے کہ قرآن خالص کو معیار ومدار تسلیم کرنے سے ان کے دعاوی باطل قرار پاجاتے ہیں۔ یہ ہے حدیث کے ساتھ ان حضرات کی وابستگی کا راز۔ یعنی
حکایت قد آں یار دل نواز کنم
بایں بہانہ مگر عمر خود دراز کنم
میرا تعلق کسی فرقہ سے نہیں
اس تمہیدی وضاحت کے بعد میں آگے بڑھتا ہوں۔ لیکن آگے بڑھنے سے پیشتر میں اتنی وضاحت اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا تعلق کسی فرقہ سے نہیں۔ میں سیدھا سادہ مسلمان ہوں اور قرآن کریم کا ادنیٰ سا طالب علم اور اس کی تعلیم کا مبلغ۔ ختم نبوت چونکہ (میری بصیرت قرآنی کی رو سے) دین کی اصل اور اسلام کی بنیاد ہے۔ اس لئے میں اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ اس مسئلہ کو قرآن کریم کی روشنی میں واضح طور پر سامنے لاؤں۔ میں نہ کسی سے بحث کرنا چاہتا ہوں نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کرنا۔ میں اس موضوع کو علمی سطح پر رکھنا چاہتا ہوں۔ مرزاقادیانی کی تحریروں میں بہت کچھ ایسا بھی ہے جسے عام بازاری سطح پر بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن میں اس سے احتراز کروںگا۔ مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت کا ہو یا مثیل مسیح وغیرہ کا۔ میری تحقیق کی رو سے یہ تمام دعاوی قرآن کریم کے خلاف اور کذب وافتراء ہیں۔ لیکن چونکہ وہ ایک جماعت کے نزدیک واجب الاحترام ہیں اور قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ تم مشرکین کے معبودوں کے متعلق بھی کوئی دلآزارانہ بات نہ کرو۔ اس لئے میں انہیں مرزاقادیانی کہہ کر پکاروںگا۔ مرزائی حضرات اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں۔ لیکن میں ان کی اس نسبت کو صحیح نہیں سمجھتا۔ کیونکہ احمدؐ حضور نبی اکرمﷺ کا اسم گرامی تھا اور یہ حضرات رسول اﷲﷺ کی جہت سے اپنے آپ کو احمدی نہیں کہتے۔ کیونکہ مرزاغلام احمد قادیانی کی نسبت سے ایسا کہتے ہیں۔ بایں ہمہ میں انہیں احمدی کہہ کر ہی پکاروںگا۔ کیونکہ یہ مرزائی کہلانے سے گریز کرتے ہیں۔ میں الفاظ کے استعمال میں اس قدر احتیاط اس لئے ضروری خیال کرتا ہوں کہ ان حضرات میں شاید کوئی سعید روحیں ہوں جو نیک نیتی سے حق کی متلاشی ہوں تو وہ میری معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کر سکیں۔ الفاظ میں بے احتیاطی، فریق مخالف میں نفرت اور تعصب پیدا کر دیتی ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے تاکید کی ہے کہ: ’’ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی احسن (النحل:۱۲۵)‘‘ تم