اور وہ یہ کہ حق اور باطل غلط اور صحیح کا میعار خدا کی کتاب ہے جو عقیدہ جو قول قرآن کے خلاف ہوگا۔ وہ باطل ہے۔ خواہ اس کی نسبت کسی کی طرف بھی کیوں نہ کر دی جائے۔ قرآن کریم کا واضح ارشاد ہے کہ نبوت کی مختلف قسمیں نہیں ہوتیں۔ یہ ہی نبیوں میں اس قسم کی تفریق ہوتی ہے کہ بعض صاحب کتاب (تشریعی) ہوتے ہیں اور بعض بلا کتاب (غیر تشریعی) اس قسم کے عقائد قرآن کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ نبوت حضور رسالت مآبﷺ کی ذات اقدس پر ختم ہوگئی۔ اس کے بعد دعویٰ نبوت کذب وافتراء ہے۔
غیر نبی کی طرف وحی
جب ان حضرات سے کہا جاتا ہے کہ مرزاقادیانی نے وحی کا بھی دعویٰ کیا ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ نبیوں کے علاوہ اوروں پر وحی نازل ہونا بھی قرآن سے ثابت ہے اور اس کی تائید میں قرآن کریم کی دو آیات پیش کرتے ہیں۔
۱… ’’واوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیہ (القصص:۷)‘‘{ہم نے ام موسیٰ کی طرف حکم بھیجا کہ وہ بچے کو دودھ پلائے۔}
۲… ’’واذ اوحیت الیٰ الحوارین ان اٰمنوا بی وبرسولی (مائدہ:۱۱۱)‘‘ {اور جب ہم نے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے) حواریوں کی طرف حکم بھیجا کہ وہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لائیں۔}
ہم نے دوسرے باب میں وحی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس سے واضح ہے کہ وحی کے ایک معنی تو اصطلاحی ہیں۔ جس سے مراد ہے کہ خدا کی طرف سے کسی رسول کو کوئی حکم ملنا اور اس کے لغوی معانی ہیں۔ اپنے ایلچی کی معرفت کسی کی طرف کوئی پیغام بھیجنا۔ مذکورہ دونوں آیات میں اوحینا کے یہی لغوی معنی مقصود ہیں۔ یعنی خدا نے اپنے کسی پیغامبر (یعنی کسی رسول) کی معرفت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف یہ حکم بھیجا۔ یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کی طرف۔ حضرت عیسیٰ کی وساطت سے یہ حکم بھیجا۔ قرآن کریم کی رو سے کسی غیر از نبی کو خدا کی طرف سے وحی ملنے کا ثبوت نہیں مل سکتا۔ لہٰذا یہ دعویٰ باطل ہے کہ غیر از نبی کی طرف بھی وحی نازل ہوسکتی ہے۔ وحی آخری بار حضور نبی اکرمﷺ کو ملی اور اس کے بعد اس کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے منقطع ہوگیا۔ اسی کو ختم نبوت کہتے ہیں۔
خدا سے ہم کلامی
ان حضرات کا کہنا ہے کہ وحی نبوت تو بند ہوچکی ہے۔ لیکن خدا سے ہم کلامی کا سلسلہ