کرسکتا… اس قسم کی شرارتوں کا نتیجہ لڑائی جھگڑا حتیٰ کہ قتل وخونریزی بھی معمولی بات ہے۔ اگر (اس سلسلے میں) کسی کو پھانسی بھی دی جائے اور وہ بزدلی دکھائے تو ہم ہرگز اسے منہ نہیں لگائیںگے۔ بلکہ میں تو اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھوںگا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۱؍اپریل ۱۹۳۰ئ)
مزید فرمایا: ’’جب تک ہمارے جسم میں جان اور بدن میں توانائی ہے اور دنیا میں ایک احمدی بھی زندہ ہے۔ اس نیت کو لے کر کھڑے ہونے والے کو پہلے ہماری لاشوں پر سے گزرنا ہوگا اور ہمارے خون میں تیرنا ہوگا۔‘‘ (الفضل ۱۵؍اپریل ۱۹۳۰ئ)
لیکن قبلہ! رسول سے محبت کرنا تو عین دین ہے اور مسیح موعود کا ارشاد ہے کہ ؎
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
کیا آپ خون بہاتے وقت مسیح موعود کی ساری تعلیم کو روند جائیںگے؟ بہرحال یہ جذبہ بڑآ جواں مردانہ ہے۔ یہ مذہبی عزت وحمیت ہر شریف انسان میں ہونی چاہئے اور ضرور ہونی چاہئے۔ اس لئے میرا یہ عاجزانہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے اس مشورے پر جو آپ نے علم الدین کے سلسلے میں دیا تھا نظر ثانی فرمائیں۔ وہ مشورہ دوبارہ درج ہے۔ ’’وہ نبی بھی کیسا نبی ہے جس کی عزت کو بچانے کے لئے خون سے ہاتھ رنگنے پڑیں… اور جو ان کی پیٹھ ٹھونکتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے۔‘‘
باقی کہانی آپ کو معلوم ہوگی کہ ان آتشیں خطبات سے متأثر ہوکر ۲۳؍اپریل ۱۹۳۰ء کو ایک نوجوان احمدی محمد علی نے مولوی عبدالکریم اور ان کے ساتھی محمد حسین پر قاتلانہ حملہ کر دیا۔ عبدالکریم گھائل ہوئے اور محمد حسین ہلاک۔ ملزم ۱۶؍مئی ۱۹۳۱ء کو سپرد دار ہوا۔ اس کے جنازہ کو خود خلیفۃ المسیح نے کندھا دیا اور وہ نوجوان نہایت احترام سے بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوا۔ قرآن کی فطری تعلیم کے خلاف چلنا بہت مشکل ہے۔ اور درست فرمایا تھا میاں محمود احمد قادیانی نے۔ ’’ہمیں تو حضرت مسیح موعود نے خصی کردیا ہے۔ مگر ساری دنیا تو خصی نہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۰؍جنوری ۱۹۳۵ئ)
آٹھواں باب … صداقت کے چار معیار
مرزاقادیانی نے اپنی صداقت کے چار معیار مقرر فرمائے ہیں۔ ان کی تفصیل آپ ہی کی زبان سے سنئے۔ ’’خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں چار عظیم الشان آسمانی تائیدوں کا کامل مؤمنوں کے لئے وعدہ دیا ہے اور وہی کامل مومن کی شناخت کے لئے کامل علامتیں ہیں اور یہ ہیں۔