تعریف میں نے پیش کی تھی اس پر مبنی بحث کے بعد اپنے فیصلہ میں کہا کہ: ’’مدعا علیہ، قادیانی عقائد اختیار کرنے کی وجہ سے مرتد ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے۔‘‘ (فیصلہ ص۱۸۲)
مذکورہ بالا فیصلہ میں فاضل جج نے لکھا ہے کہ ان کی عدالت میں (غیر منقسم) ہندوستان کے بڑے بڑے جیّد علماء حضرات پیش ہوئے۔ جن میں سے ایک ایک کا بیان سینکڑوں صفحات پر مشتمل تھا۔ لیکن وہ حقیقت نبوت کے متعلق ان میں سے کسی کے بیان سے بھی مطئمن نہ ہوسکے۔ وہ مطمئن ہوئے تو میرے ایک ایسے مضمون سے جو اس مقدمہ سے بالکل الگ آزادانہ لکھاگیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ میرے مضمون کی وہ کون سی خصوصیت تھی جس کی بناء پر وہ اس قدر اطمینان بخش ثابت ہوگیا۔ یہ ظاہر ہے کہ جہاں تک متداول علوم شرعیہ (فقہ، حدیث وغیرہ) کا تعلق ہے۔ ان علماء کرام کا مقام بہت بلند تھا۔ جو اس عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ لیکن میرے مضمون کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کی بنیاد خالص قرآنی حقائق پر تھی۔ میں اس میں، فقہ اور روایات پر مبنی بحثوں میں الجھا ہی نہیں تھا۔ ختم نبوت کا مسئلہ جو قادیانی اور غیر قادیانی حضرات میں ساٹھ،ستر برس سے مسلسل بحث ونظر کا موضوع بنے چلا آرہا ہے اور بھنور میں پھنسی ہوئی لکڑی کی طرح ایک ہی مقام پر مصروف گردش ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس بحث کا مدار روایات پر ہوتا ہے اور روایات کی کیفیت یہ ہے کہ ان کے مجموعوں میں، مخالف اور موافق ہر ایک کو اپنے اپنے مطلب کے مطابق روایات مل جاتی ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ بحث اصل موضوع سے ہٹ کر فریقین کی طرف سے پیش کردہ حدیثوں کے صحیح یا ضعیف ہونے پر مرکوز ہو جاتی ہے اور یوں محمل لیلیٰ، غبار ناقۂ لیلیٰ میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس کے برعکس قرآن جو کچھ پیش کرتا ہے۔ حتمی، یقینی اور دوٹوک پیش کرتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی مسئلہ کے متعلق اس میں فریقین کو اپنے اپنے مطلب کے مطابق اختلافی آیات مل جائیں۔ یہ وجہ ہے کہ میں روایات میں نہیں الجھتا۔ میں جو کچھ پیش کرتا ہوں اس کی اساس قرآنی دلائل پر ہوتی ہے اور فریق مقابل سے بھی قرآنی سند کا مطالبہ کرتا ہوں۔ نتیجہ یہ کہ بات بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔
احادیث کی پوزیشن حدیث کی تاریخ اور صحیح پوزیشن کے متعلق میں مختلف مقامات پر بڑی شرح وبسط سے لکھتا چلا آرہا ہوں۔ (میری حال میں شائع شدہ تازہ تصنیف، شاہکار رسالت کے آخری باب میں اس تفصیل کا ملخص بڑے جامع ومانع انداز سے دیاگیا ہے) یہ حقیقت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے