جائیں اور پھر ترتیب وار ایک رسالہ کی صورت میں بنالیں اور اس رسالہ کا نام ہوگا۔ ’’اربعین لا تمام الحجۃ علیٰ المخالفین‘‘ آج میں نے اتمام حجت کے لئے یہ ارادہ کیا ہے کہ مخالفین اور منکرین کی دعوت میں چالیس اشتہار شائع کروں۔ تاکہ قیامت کو میری طرف سے حضرت احدیت میں یہ حجت ہو کہ میں جس امر کے لئے بھیجا گیا تھا اس کو میں نے پورا کیا۔‘‘
اپنے اس ارادہ کی مزید تشریح مرزاقادیانی نے کتاب کے حاشیہ میں اس طرح کی ہے: ’’اس اشتہار کے بعد انشاء اﷲ ہر ایک اشتہار بشرطیکہ کوئی روک پیش نہ آجائے نکلا کرے گا۔ جب تک کہ چالیس اشتہار پورے ہو جائیں۔‘‘
بعد میں چار اشتہار یارسالے لکھنے پر مرزاقادیانی نے کتاب ختم کر دی اور چالیس اشتہار پورا کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس میں کوئی خاص بات نہ تھی۔ مصنفوں کی بہترین کوشش کے باوجود بعض کتب نامکمل رہ جاتی ہیں۔ بہرحال یہ ایک معمولی سا معاملہ تھا اور معذرت کے چند الفاظ لکھ دینا کافی تھا۔ لیکن نہ معلوم اپنے فن کے تقاضے سے مجبور ہوکر یا مخالف مولویوں کے اعتراض کے ڈر سے مرزاقادیانی نے اس امر کے لئے بھی سند تلاش کر کے پیش کر دی ہے۔ یہ کہنے کے بعد کہ رسالے توقع سے زیادہ لمبے ہوگئے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ: ’’درحقیقت وہ امر پورا ہوچکا۔ جس کا میں نے ارادہ کیا تھا۔ اس لئے میں نے ان رسائل کو صرف چار نمبر تک ختم کر دیا اور آئندہ شائع نہیں ہوگا۔ جس طرح ہمارے خدائے عزوجل نے اوّل پچاس نمازیں فرض کیں۔ پھر تخفیف کر کے پانچ کو بجائے پچاس کے قرار دے دیا۔ اسی طرح میں بھی اپنے رب کریم کی سنت پر ناظرین کی تخفیف تصدیع کر کے چار کو بجائے نمبر چالیس کے قرار دیتا ہوں۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۲، خزائن ج۱۷ ص۴۴۲)
مقام حدیث اور نزول مسیح
گذشتہ چند سالوں میں حدیث کا مقام ایک شدید اور پرجوش بحث کا موضوع بناہوا ہے اور جوں جوں وقت گذرتا ہے اس بحث میں تلخی بڑھ رہی ہے۔ پرانے مکتب خیال کے بزرگوں کو اصرار ہے کہ ایک مسلمان کے لئے یہ کافی نہیں کہ توحید اور رسالت پر ایمان لے آئے اور قرآن کو من جانب اﷲ مان لے۔ بلکہ احادیث پر ایمان لانا بھی ویسا ہی ضروری ہے۔ ان کے نزدیک رسالت پر ایمان لانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ رسول کریمﷺ کے فرمان پر بے چون وچرا عمل کیا جائے۔ اس کے مقابلے میں جس گروہ کو منکرین حدیث کہا جاتا ہے وہ فی الواقعہ حدیث کے منکر نہیں ہیں۔ بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ کسی روایت کا احادیث کی مستند کتابوں میں