بہرحال اس عقدہ کو حل کرنے کی ذمہ داری مخالفین پر نہیں۔ بلکہ خود صاحب الہام پہ عائد ہوتی ہے۔ ’’اعجاز احمدی‘‘ ۱۹۰۲ء کی تصنیف ہے اور پورے دو برس پہلے وہ اس مشکل کا حل فرماچکے تھے۔ فرماتے ہیں۔ ’’میرے دعویٰ مسیح موعود کی بنیاد انہی الہامات (براہین احمدیہ والے) سے پڑی۔ انہیں میں میرا نام خدا نے عیسیٰ رکھا اور جو آیتیں مسیح موعود کے حق میں تھیں۔ وہ میرے حق میں بیان کر دیں۔ اگر علماء کو خبر ہوتی کہ ان الہامات سے تو اس شخص کا مسیح ہونا ثابت ہوتا ہے تو وہ کبھی ان کو قبول نہ کرتے۔ یہ خدائی قدرت ہے کہ انہوں نے قبول کر لیا اور اس پیچ میں پھنس گئے۔‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۲۱، خزائن ج۱۷ ص۳۶۹)
یہ جواب صحیح معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ یہ بات ناقابل تسلیم ہے کہ ایک رسول پر ایک وحی نازل ہو۔ جبریل ہر روز مسلسل آتا رہے اور رسول کو بارہ برس تک اس وحی کا مطلب ہی معلوم نہ ہوسکے۔ ہر رسول کا یہ فرض منصبی ہوتا ہے کہ وہ اپنی وحی کی تبلیغ کرے۔ ’’بلغ ما انزل الیک (المائدہ:۶۷)‘‘ {ہمارے پیغام کی تبلیغ کرو۔}
لیکن اگر کسی رسول کو بارہ برس تک اس پیغام کا مفہوم ہی معلوم نہ ہوسکے تو وہ تبلیغ کیا کرے گا؟ رسالت کی طویل تاریخ میں یہ آج تک نہیں ہوا اور نہ ایسا ہونا ممکن ہے کہ ایک رسول بارہ برس تک اپنے الہام کو نہ سمجھے۔ حامل الوحی (جبریل) مسلسل آتا رہے اور سمجھائے بغیر واپس جاتا رہے۔ وہ رسول خدا کے الہام ومنشاء کے خلاف پیہم لکھتا رہے اور اﷲتعالیٰ چپ چاپ تماشہ دیکھتا رہے۔ اس صورتحال کو عقل قبول نہیں کرسکتی۔
تیسرا باب … مسیح ومثیل مسیح
مرزاقادیانی بارہا فرماچکے ہیں کہ: ’’میں مثیل مسیح ہوں۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعض روحانی خواص طبع اور عادات اور اخلاق وغیرہ کے خداتعالیٰ نے میری فطرت میں بھی رکھے ہیں۔‘‘ (ازالہ ج۱ ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اخلاق، عادات اور خواص کیا تھے۔ ان کی تفصیل سے مرزاقادیانی کی تصانیف لبریز ہیں۔ مشتے نمونہ از خوارے ملاحظہ ہوں۔ ’’اس مسیح (مرزاقادیانی) کو اسرائیلی مسیح پر ایک جزئی فضیلت حاصل ہے… اس کو… وہ حکمت اور معرفت سکھائی گئی جو مسیح ابن مریم کو نہیں سکھلائی تھی۔‘‘ (ازالہ اوہام ج۲ ص۶۴۸، خزائن ج۳ ص۴۵۰)