ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ سورۂ مدثر میں بھی محمد رسول اﷲﷺ کو نبی یا رسول کے نام سے مخاطب نہیں کیاگیا اور نہ یہ کہاگیا ہے کہ آپ نبی یا رسول ہیں۔ اس کی بجائے مدثر کے نام سے مخاطب کر کے انہیں وہ پیغام بتادیا گیا ہے۔ جو لوگوں تک جانا ہے۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ کم ازکم چند لوگ ایسے تھے جو پہلی وحی کے ساتھ ہی محمدﷺ پر ایمان لے آئے۔ یعنی ان کو نبی اور رسول مان لیا۔ ان میں حضرت خدیجہؓ حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکرؓ شامل تھے۔
ان واقعات سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ قرآن کے نزول کے زمانہ میں عربوں کے ہاں اس شخص کو نبی سمجھا جاتا تھا جو اپنی وحی کے ذریعہ دنیا کی ہدایت کا دعویدار ہو۔ شاید دعویدار کا لفظ استعمال کرنا بھی غیر موزوں ہے۔ کیونکہ متذکرہ ابتدائی آیات میں کسی دعویٰ کا ذکر نہیں ہے۔ اس لئے یہ کہنا زیادہ قرین صحت ہوگا کہ اس زمانے میں ہر اس شخص کو مدعی نبوت سمجھا جاتا تھا جو اپنی وحی کو لوگوں کے سامنے بطور ذریعہ ہدایت پیش کرے۔ خواہ وہ اپنا کوئی نام ہی رکھے یا کوئی نام بھی نہ رکھے۔ ہمارے نزدیک قرآن میں لفظ نبی انہی معروف اور عمومی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ خواہ یہ نبیوں کو مبعوث کرنے کے ضمن میں ہو اور خواہ نبوت کو ختم کرنے کی نسبت۔
نبی بمعنی محدث
پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہاں محدث (بہ فتح د) سے بحث ہے۔ محدث (بہ کسرہ د) جدا اور بے ضرر سا لفظ ہے۔ جس سے مراد حدیث بیان کرنے والا یا عالم حدیث ہے۔
مرزاقادیانی کی نبوت کی بحث میں لفظ محدث اور اس کے مفہوم نے خاصی اہمیت حاصل کر لی ہے۔ محدث کے معنی ہیں جس سے کلام کیاگیا ہو۔ مذہبی اصطلاح میں اس سے مراد وہ شخص ہے جس سے خداتعالیٰ کلام کرے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کے مخاطب مسلمانوں کے نزدیک محدثین کا وجود ایک مسلمہ حقیقت تھی اور عام خیال یہ تھا کہ امت میں ایسے اشخاص ہوسکتے ہیں جو خدا سے مکالمہ ومخاطبہ کے تعلق کی بناء پر محدث کہلائیں۔ اس خیال کے ساتھ قرآن کی ایک آیت کے بارے میں ایک ایسی روایت موجود تھی۔ جس کی مدد سے محدث اور نبی کو ہم منصب قرار دیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرزاقادیانی نے اپنی نبوت کا جواز پیدا کر لیا۔ مرزاقادیانی کے استدلال کی وضاحت کے لئے ان کی کتاب آئینہ کمالات اسلام کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تحریر مرزاقادیانی کے فن تاویل کے شہ پاروں میں جگہ پانے کے لائق ہے۔ اولیاء اﷲ کے احوال پر بحث کرتے ہوئے مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔
’’جب کسی کی حالت اس نوبت تک پہنچ جائے تو اس کا معاملہ اس عالم سے وراء الوراء