اقتباسات بالا کا ملخص یہ ہے کہ حضورﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نیا یا پرانا نبی نہیں آسکتا اور ہرکہ مدعی نبوت (بعد از حضورؐ) کاذب وکافر ہے۔
یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ، اب دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے۔ ’’یہ بات بالکل روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔‘‘
(حقیقت النبوۃ ص۲۲۸، مصنفہ میاں محمود احمد، امام جماعت احمدیہ)
اس دعویٰ کی مزید تشریح ملاحظہ ہو۔ ’’یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ محمدﷺ سے بھی بڑھ سکتا ہے۔‘‘
(ارشاد میاں محمود احمد، اخبار الفضل ۱۷؍جولائی ۱۹۲۳ئ)
خلیفہ صاحب کے یہ ارشادات بے اصل نہیں۔ بلکہ ان کی بنیاد مرزاقادیانی کی مختلف تحریرات پہ ڈالی گئی تھی۔ مثلاً: ’’یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرتﷺ کے وحی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ہے اور آئندہ کو قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہیں… کیا ایسا مذہب کچھ مذہب ہوسکتا ہے؟‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۸۳، خزائن ج۲۱ ص۳۵۴)
(آسمانی فیصلہ ص۲۵، خزائن ج۴ ص۳۳۵) کا اقتباس پھر پڑھئیے۔ ’’اے مسلمانوں کی ذریت کہلانے والو! دشمن قرآن نہ بنو اور خاتم النبیین کے بعد وحی نبوت کا سلسلہ جاری نہ کرو۔‘‘
اور دیکھئے: ’’کیا ضروری نہیں کہ اس امت میں بھی کوئی نبیوں اور رسولوں کے رنگ میں نظر آوے جو نبی اسرائیل کے تمام نبیوں کا وارث اور ان کا ظل ہو۔‘‘
(کشتی نوح ص۴۴، خزائن ج۱۹ ص۴۷)
ختم نبوت کی نئی تشریح
’’اور بالآخر یاد رہے کہ اگر ایک امتی کو جو محض پیروی آنحضرتﷺ سے درجہ وحی اور الہام اور نبوت کا پاتا ہے۔ نبی کے نام کا اعزاز دیا جائے تو اس سے مہر نبوت نہیں ٹوٹتی۔ کیونکہ وہ امتی ہے۔ مگر کسی ایسے نبی کا دوبارہ آنا جو امتی نہیں ہے۔ ختم نبوت کے منافی ہے۔‘‘
(چشمۂ مسیحی ص۵۰، خزائن ج۲۰ ص۳۸۳)
مجھے اس قول سے اختلاف ہے۔ میں جب انبیاء کی طویل فہرست پر نگاہ ڈالتا ہوں تو اس میں سے مجھے ہر ایک (آدم علیہ السلام کے سوا) امتی نظر آتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام