سوہا۰ فالہمہا فجورہا وتقوہا (الشمس:۷،۸)‘‘ انسانی نفس اور اس کا تسویہ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ خدا نے اس کے اندر فجور اور تقویٰ کی صلاحیت رکھ دی۔
ان نکات کی تشریح کا یہ موقعہ نہیں۔ یہاں صرف اتنا بتانا مقصود ہے کہ قرآن کریم میں یہ لفظ صرف اس مقام پر آیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسانی نفس میں اس قسم کی خصوصیات رکھ دی ہیں۔ انسانی نفس ہر انسانی بچہ کو پیدائش کے ساتھ عطاء ہوتا ہے۔ اس لئے نفس کی یہ خصوصیات ہر انسانی نفس کے لئے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ کہیں نہیں کہاگیا کہ خدا بعض انسانوں (اپنے مقربین) کو بذریعہ الہام کوئی علم دیتا ہے۔ ایساکہیں نہیں آیا۔ باقی رہا کشف، سو اس کے معنی ہیں پردے کا اٹھادینا۔ کسی بات کو ظاہر کر دینا۔ قرآن کریم میں یہ مادہ عذاب یا مصائب کے دور کرنے کے معانی میں آیا ہے۔ کسی کو غیب کا علم عطاء کرنے کے معانی میں کہیں نہیں آیا۔ یہ جو ہمارے ہاں عقیدہ ہے کہ حضرت اولیاء کرام کو کشف والہام ہوتا ہے اور مقصد اس سے ہوتا ہے۔ ایسا علم جو خدا سے براہ راست حاصل ہو تو قرآن کریم سے اس کی سند نہیں ملتی۔ (جیسا کہ آگے چل کر بیان کیا جائے گا۔ یہ عقیدہ غیر قرآنی اور دوسروں سے مستعار لیا ہوا) خدا سے براہ راست علم حاصل کرنے کے لئے قرآن کریم میں وحی کی اصطلاح آتی ہے اور وحی حضرات انبیاء کرام علیہم السلام تک محدود تھی اور حضور نبی اکرمﷺ کی ذات پر ختم ہوگئی۔ اب خدا سے کسی کو براہ راست علم حاصل نہیں ہوسکتا۔ وحی کو خدا نے اپنا کلام بھی کہا ہے۔ اس لئے ختم نبوت کے بعد خدا سے ہم کلامی کا دعویٰ بھی درحقیقت دعویٰ نبوت ہے۔ خدا نے کسی (غیر از نبی) انسان کے متعلق یہ نہیں کہا کہ ہم اس سے کلام کرتے ہیں یا وہ ہم سے کلام کر سکتا ہے۔ نہ ہی یہ کہ ہم نے فلاں کی طرف الہام کیا یا اپنے مقربین کی طرف الہام کریںگے۔ لہٰذا قرآن کریم سے کشف، الہام یا غیر از نبی سے ہم کلامی کی کوئی سند نہیں ملتی۔ اس عقیدہ کے عملی نتائج کے متعلق ذرا آگے جاکر بات کی جائے گی۔
۳…کتاب
اس لفظ (یا مادہ، ک،ت ،ب) کے بنیادی معنی فیصلہ اور حکم کے ہیں۔ (تاج العروس) قرآن کریم میں ’’کتب علیکم القصاص (البقرہ:۱۷۸) یا کتب علیکم الصیام (البقرہ:۱۸۳)‘‘ فرض یا ضروری قرار دینے کے معنوں میں آیا ہے۔
چونکہ یہ احکام اکثر لکھے ہوتے تھے۔ اس لئے کتب کے معنی لکھنے کے ہوگئے اور ان تحریر شدہ احکام یا فیصلوں کے اوراق کی شیرازہ بندی سے جو مجموعہ مرتب ہوا۔ اسے کتاب سے تعبیر