کرنا؟ جو معارف مرزاقادیانی کو پیر مہر علی شاہ کے مقابلے میں بیان کرنے تھے۔ ان سے ہمیں کیوں محروم رکھا اور اپنے سینے میںلئے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے؟
شہادت القرآن
عصرمن پیغمبرے ہم آفرید
آنکہ در قرآن بغیر ازخود ندید
(اقبالؒ)
اس باب میں ہم مرزا قادیانی کے فن تفسیر کے چند نمونے بیان کرنا چاہتے ہیں۔ غرض مرزا قادیانی کی تفسیر پر کوئی تفصیلی بحث کرنا نہیں ہے۔ بلکہ صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ کس طرح مرزا قادیانی نے قرآنی آیات کی ناجائز تاویل کرکے انہیں اپنے مقاصد کی تائید کے لئے استعمال کیا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم میں ایک دوسرے مذہبی رہنما کے متعلق لطیفہ کے طور پر یہ بات بیان کی ہے کہ وہ کہتا تھا میں نے قرآنی الفاظ کو معانی کی قید سے آزاد کردیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ قول مرزا قادیانی پر بھی پوری طرح صادق آتا ہے۔ مرزا قادیانی کا بنیادی مقصد اپنی ذات تھا۔ ان کی تمام تفسیر اس مقصد کے گرد گھومتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس باب کے شروع میں علامہ اقبال کا جو شعر نقل کیا گیا ہے۔ حقیقت میں وہ مرزا قادیانی کے فن تفسیر کا نچوڑ ہے اور اس بارے میں اس سے بہتر تنقید ممکن نہ تھی۔
مرزا قادیانی کے دعاوی کی تردید میں ہم نے سب سے بڑی دلیل یہ پیش کی ہے کہ قرآن سے نزول مسیح وغیرہ آثار کی تائید نہیں ہوتی۔ لیکن اگر مرزا قادیانی کی تفسیر درست مانی جائے تو ہماری دلیل غلط ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں تمام قرآن مرزا قادیانی کی صداقت کی گواہی دے رہا ہے۔
اب اس شہادت کی مثالیں ملاحظہ فرمائیے: ’’قرآن میں سورۃ فاتحہ کو ایک نہایت خاص اور اہم مقام حاصل ہے اس سورۃ کی اہمیت کی وضاحت کے لئے اسے کئی خاص ناموں سے پکارا گیا ہے۔ مثلا: ام القرآن، الکافیہ، الکنز، اساس القرآن، سبع المثانی۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اپنی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ کے شروع میں سورۃ فاتحہ کی اہمیت پر ایک دل نشین انداز میں بحث کی ہے۔ اس تحریر کا اقتباس پیش کرنا مفید ہوگا۔ فرماتے ہیں: ’’عربی میں ’’ام‘‘ کا اطلاق تمام ایسی چیزوں پر ہوتا ہے جو ایک طرح کی جامعیت رکھتی ہوں یا بہت سے چیزوں میں مقدم اور نمایاں ہوں۔ یا پھر کوئی ایسی اوپر کی چیز ہو جس کے نیچے اس کے