بروزی اور ظلی نبی
(مرزاقادیانی کے اپنے الفاظ میں) اس پیچ میں پھنسانے کے لئے انہوں نے بڑی دلچسپ اصطلاحات وضع یا اختیار کیں۔ انہوں نے کہا: ’’غرض خاتم النبیین کا لفظ ایک ایسی مہر ہے جو آنحضرتﷺ کی نبوت پر لگ گئی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ کبھی یہ مہر ٹوٹ جائے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آنحضرتﷺ نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ دنیا میں بروزی رنگ میں آجائیں اور بروزی رنگ میں اور کمالات کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی اظہار کریں۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۱۰،۱۱، خزائن ج۱۸ ص۲۱۴،۲۱۵)
دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’خداتعالیٰ نے ابتداء سے ارادہ کیا تھا کہ آنحضرتﷺ کے کمالات متعدیہ کے اظہار واثبات کے لئے کسی شخص کو آنجناب کی پیروی اور متابعت کی وجہ سے وہ مرتبہ کثرت مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ بخشے کہ جو اس کے وجود میں عکسی طور پر نبوت کا رنگ پیدا کر دے۔ سو اس طرح خدا نے میرا نام نبی رکھا۔ یعنی نبوت محمدیہ میرے آئینہ نفس میں منعکس ہوگئی اور ظلی طور پر نہ اصلی طور پر مجھے یہ نام دیا گیا تاکہ میں آنحضرتﷺ کے فیوض کا کامل نمونہ ٹھہروں۔‘‘ (چشمۂ معرفت ص۳۲۴، خزائن ج۲۳ ص۳۴۰)
ایک اور مقام پر اس کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ ’’مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اس بناء پر خدا نے باربار میرا نام نبی اﷲ اور رسول اﷲ رکھا۔ مگر بروزی صورت میں میرا نفس درمیان نہیں ہے۔ بلکہ محمد مصطفیﷺ ہے۔ اس لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد ہوا۔ پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی۔ محمد کی چیز محمد کے پاس رہی علیہ الصلوٰۃ والسلام۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۱۲، خزائن ج۱۸ ص۲۱۶)
لیجئے ظل اور بروز کے بعد مرزاقادیانی نے خود محمد رسول اﷲ ہونے کا دعویٰ کردیا۔ (معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ) ذرا دل پر پتھر رکھ کر اس کی تشریح بھی ملاحظہ فرمالیجئے۔ فرماتے ہیں: ’’اور ہمارے نزدیک تو کوئی دوسرا آیا ہی نہیں۔ نہ نیا نبی نہ پرانا۔ بلکہ خود محمد رسول اﷲﷺ کی چادر دوسرے کو پہنائی گئی ہے اور وہ خود ہی آئے۔‘‘ (الحکم، قادیان مورخہ ۳۰؍نومبر ۱۹۰۱ئ، ملفوظات ج۲ ص۴۰۴)
مرزاقادیانی کے انہی دعاوی کی روشنی میں ان کے متبعین اعلان کرتے ہیں کہ ؎
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیان میں
(اخبار بدر ج۲ نمبر۴۳ ص۱۴، مورخہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۰۶ئ، بحوالہ پیغام صلح مورخہ ۱۴؍مارچ ۱۹۱۶ئ)