اس تفسیر میں اس قسم کی کم وبیش ایک سو اغلاط موجود ہیں۔ حقیقتاً تاریخ رسالت کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ اﷲ نے مسیح موعود پر چار زبانوں میں الہامات اتارے اور ہر زبان میں درجنوں غلطیاں کیں۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ دشمن اس کی غلطیوں پہ ہنس رہے ہیں۔ وہ آخر تک اپنی ہٹ پہ قائم رہا اور وقتاً فوقتاً غلط الہامات نازل کرتا رہا۔
بارھواں باب … مخالفین نبوت سے سلوک
قرآن حکیم میں باربار حضورﷺ کو ہدایت کی گئی ہے کہ: ’’ادفع بالتی ہی احسن۰ فاذا لذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم (حم السجدہ:۳۴)‘‘ {اے رسول تم مخالفین کے مقابلے میں ایسے اخلاق کا مظاہرہ کرو کہ تمہارا دشمن بھی تمہارا مخلص دوست بن جائے۔}
دشمن کو مخلص دوست بنالینا بڑی مشکل اور کٹھن منزل ہے اور اس منزل کا حصول اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان دشمن کے اشتعال، سب وشتم، دل آزار اقدامات اور فتنہ وسازش کو قطعاً خاطر میں نہ لائے۔ رفق وملاطفت کو نہ چھوڑے۔ گالیاں سن کر دعائیں دے اور وقت مصیبت آگے بڑھ کر دشمن کے کام آئے۔ حضورﷺ زندگی بھر اس ہدایت پر عمل پیرا رہے۔ جب اہل طائف کی سنگ باری سے سرور دوعالمﷺ کے جوتے لہو سے بھر گئے تو آپؐ کی زبان مبارک پر از طائف تا مکہ (دس میل) یہی دعاء جاری رہی۔ ’’رب اہد قومی فانہم لا یعلمون‘‘ {اے رب! میری قوم کی آنکھیں کھول اور انہیں سیدھی راہ دکھا کہ یہ غریب سچائی سے ناآشنا ہیں۔}
جنگ حنین میں جب صحابہؓ کے پاؤں اکھڑ گئے اور کفار کی بے پناہ تیر اندازی نے قیامت کا سماں باندھ دیا تو رحمتہ اللعالمینﷺ نے ہجوم مصائب میں دعاء کے لئے ہاتھ اٹھائیے۔ لوگ یہ سمجھے کہ کفار کے لئے کسی فوری عذاب کی دعا مانگیںگے۔ لیکن اس رحمت مجسم کی زبان مبارک سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے۔ ’’اللہم اہد قومی فانہم لا یعلمون‘‘
عہد خلافت میں حضرت علیؓ کہیں جارہے تھے کہ دور سے ایک خارجی نے دیکھ لیا اور اناپ شناپ بکے۔ جب ساتھیوں نے توجہ دلائی تو مدینۃ العلم نے فرمایا۔ ’’عرب میں علی نام کے کئی آدمی ہیں۔ کسی اور کو کوس رہا ہوگا۔‘‘