اعلان تھا کہ: ’’ہم حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کو اس زمانہ کا نبی رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اب دنیا کی نجات حضرت نبی اکرمﷺ اور آپ کے غلام، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائے بغیر نہیں ہوسکتی۔‘‘
(لاہوری جماعت کا اخبار پیغام صلح بابت ۱۶؍اکتوبر ۱۹۱۳ئ)
اس کے بعد ان میں عقائد کا اختلاف پیدا ہوگیا۔ چنانچہ مولوی محمد علی قادیانی اپنے رسالہ مسیح موعود اور ختم نبوت میں لکھتے ہیں کہ فریق قادیان اور فریق لاہور کا اصلی اختلاف صرف دو امور میں ہے۔ ’’اوّل یہ کہ حضرت مسیح موعود مجدد تھے یا نبی، فریق قادیان کے پیشوا کا خیال ہے کہ آپ نبی تھے۔ فریق لاہور آپ کو صرف مجدد مانتا ہے۔‘‘
دوم یہ کہ جو مسلمان آپ کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ فریق قادیان کے پیشوا کا خیال ہے کہ روئے زمین کے تمام مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور فریق لاہور کا عقیدہ ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے۔ ہاں مجدد اور مسیح امت کو رد کرنا یا اس کی مخالفت کرنا قابل مواخذہ ضرور ہے۔ بلکہ اس کا ساتھ نہ دینا اور خاموشی سے الگ بیٹھے رہنا بھی اسلام کی موجودہ حالت میں عند اﷲ قابل مواخذہ ہے۔ (مسیح موعود اور ختم نبوت ص۱)
دونوں فریقوں میں بحث
ساٹھ برس سے ان دونوں جماعتوں میں یہ بحث جاری ہے کہ مرزاقادیانی کا دعویٰ کیا تھا۔ قادیانی جماعت کا دعویٰ ہے کہ مرزاقادیانی مدعی رسالت ونبوت تھے اور لاہوری جماعت کہتی ہے کہ نہیں ان کا دعویٰ صرف مجددیت کا تھا۔ آپ غور کیجئے کہ مرزاقادیانی کی اوریجنل کتابیں (جن کی تعداد کم ازکم اسی بتائی جاتی ہے) ان دونوں فریقوں کے پاس موجود ہیں اور ان کتابوں سے ساٹھ برس کی مدت میں یہ فیصلہ نہیں ہوپایا کہ مرزاقادیانی کا دعویٰ کیا تھا؟ اصل یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے فرمایا تھا کہ حدیث کی کتابیں مداری کا پٹارہ ہیں۔ جن سے جو کسی کے جی میں آئے نکالا جاسکتا ہے۔ مرزاقادیانی کی کتابیں اس سے بھی بڑا پٹارہ ہیں۔ جن سے ہر فریق اپنے اپنے دعویٰ کی تائید میں جو چاہے نکال لیتا ہے۔ (مثلاً) مرزاقادیانی نے اپنے لئے سینکڑوں، ہزاروں مرتبہ نبی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لاہوری جماعت کہتی ہے کہ انہوں نے (مرزاقادیانی نے) مولوی عبدالحکیم صاحب کے ساتھ مباحثہ کے بعد جو راضی نامہ کیا تھا اس میں لکھ دیا تھا کہ: ’’بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اس کو یعنی لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرمائیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۱۴)