اور صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی فرماتے ہیں کہ: ’’اب معاملہ صاف ہے۔ اگر نبی کریم کا انکار کفر ہے تو مسیح موعود (یعنی مرزاغلام احمد قادیانی) کا انکار بھی کفر ہونا چاہئے۔ کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل ص۱۴۶، صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی)
صحابہ کی جماعت
جب مرزاقادیانی (معاذ اﷲ) عین محمد ٹھہرے تو ان کی جماعت بھی صحابہ کی جماعت بن گئی۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت درحقیقت آنحضرتﷺ کے ہی صحابہ میں کی ایک جماعت ہے اور جیسا کہ آنحضرتﷺ کا فیض صحابہ پر جاری ہوا۔ ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے مسیح موعود کی جماعت پر بھی آنحضرتﷺ کا فیض ہوا… یہ اس امر کی پختہ دلیل ہے کہ مسیح موعود درحقیقت محمد اور عین محمد ہیں۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ یکم؍جنوری ۱۹۱۶ئ)
خود خدا کا ظہور
محمد(ﷺ) ہی کا ظہور نہیں بلکہ خود خدا کا ظہور، قادیان سے شائع ہونے والے محلہ (تشحیذ الاذہان ج۶ نمبر۱۱ کے ص۴۰۸، نومبر۱۹۱۱ئ) پر مرقوم ہے۔ ’’وہ جو خدا کے لئے بمنزلہ اولاد ہے۔ وہ جس کا ظہور خدا اپنا ظہور قرار دیتا ہے۔‘‘
آگے بڑھنے سے پہلے اتنا سمجھ لینا ضروری ہے کہ ظلی اور بروزی، عکسی اور حلولی وغیرہ الفاظ یا اس قسم کے تصورات نہ قرآن کریم میں ملتے ہیں نہ حدیث میں۔ نہ ہی صدر اوّل کے لٹریچر میں ان کا کہیں پتہ نشان ملتا ہے۔ یہ تمام تصورات مجوسیوں کے تھے۔ ان سے ہمارے ہاں تصوف نے مستعار لئے اور وہاں سے مرزاقادیانی نے اخذ کر لئے۔ اس کی شہادت خود مرزاقادیانی کے متبعین کے ہاں سے ملتی ہے۔ احمدیوں کی لاہوری شاخ کے ترجمان پیغام صلح ص۸ ج۶۰ نمبر۲۸ کی ۱۱؍جولائی ۱۹۷۳ء کی اشاعت میں ایک مقالہ شائع ہوا ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ: ’’آپ کی (مرزاقادیانی کی) تحریرات میں جو اصطلاحات پائی جاتی ہیں۔ جن سے اپنوں اور بیگانوں کو ٹھوکر لگی ہے اور آپ کو مدعی نبوت سمجھنے لگے ہیں۔ جیسے ظلی نبی، بروزی نبی، امتی نبی، غیر تشریعی نبی، فنا فی الرسول اور مجازی نبی تو ان کے متعلق سمجھنے والی بات صرف یہ ہے کہ یہ اصطلاحات کہاں سے لی گئی ہیں اور ان کے معنی کیا ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان اصطلاحات کا قرآن مجید اور احادیث میں تو کوئی ذکر نہیں اور آنحضرتﷺ کے پانچ چھ سوسال بعد تک ہمیں ان کا وجود نظر نہیں آتا۔ لیکن جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ اصطلاحات صوفیائے کرام نے وضع کی ہیں۔‘‘