موعود بیعت لیتے وقت یہ اقرار لیا کرتے تھے کہ آج میں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں۔ پھر اس پر بس نہیں جبکہ آپ نے اپنی جماعت کا نام بھی احمدی جماعت رکھا۔ پس یہ بات یقینی ہے کہ آپ احمد تھے۔‘‘ (کلمتہ الفصل مندرجہ رسالہ ریویو نمبر۳ ج۱۴ ص۱۳۹تا۱۴۱)
غلام احمد
لیکن ایسا کہتے وقت ان حضرات کے دل میں یہ کھٹک رہی اور دوسروں نے بھی یہ اعتراض کیا کہ جب مرزاقادیانی کا نام غلام احمد تھا تو آپ احمد کیسے ہوگئے۔ اس اعتراض کا جواب ملاحظہ فرمائے۔ ’’آپ کا یہ سوال ہے کہ بشارت تو احمد کی ہے اور مرزاقادیانی غلام احمد ہیں۔ جواباً عرض ہے کہ مطلق غلام احمد نہ عربی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں غلام احمد ہوتا اور نہ یہ فارسی بن سکتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں غلام احمد ہوتا اور نہ یہ نام اردو ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں احمد کا غلام ہونا چاہئے تھا۱؎۔ اصل بات یہ ہے کہ چونکہ حضرت صاحب کے خاندان میں غلام کا لفظ اصل نام کے ساتھ اضافہ کے طور پر اس ملک کے رواج کے مطابق چلا آتا تھا۔ اس واسطے آپ کے نام کے ساتھ بھی لگادیا گیا۔ احادیث میں آتا ہے کہ مسیح جوان ہوگا اور غلام کے معنی جوان کے ہیں۔ جس سے یہ بتایا گیا کہ اس کے کام جوانوں کے سے ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۸؍اپریل ۱۹۱۶ئ)
یہ جواب کسی تبصرہ کا محتاج نہیں۔ (حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا جواب یہی حضرات دے سکتے تھے) پہلے یہ کہا کہ غلام کا لفظ حضرت صاحب کے خاندان میں بطور اضافہ چلا آرہا تھا۔ لیکن (غالباً) بعد میں خیال آیا کہ حضرت صاحب کے خاندانی بزرگوں کے نام یہ تھے۔ والد (غلام مرتضیٰ) دادا (عطاء محمد) پردادا (گل محمد) اس لئے غلام کا لفظ صرف ان کے والد کے نام کے ساتھ آیا تھا۔ ان کے خاندان میں نہیں چلا آرہا تھا۔ (غالباً) اسی خیال سے دوسری توجیہہ کی ضرورت پڑی کہ مسیح جوان ہوگا۔ اس لئے یہ بتایا گیا کہ ان کے کام جوانوں جیسے ہوںگے۔
یہ حضرات (غالباً) اس بات کو بھول گئے کہ اگر غلام احمد سے مراد احمد ہے۔ غلام کا لفظ خاندانی رواج کے مطابق محض اضافہ ہے تو اس دلیل کی رو سے مرزاقادیانی کے والد غلام مرتضیٰ بھی
۱؎ لیکن اس کا کیا جواب کہ مرزاقادیانی اپنے آپ کو خود احمد کا غلام کہتے رہے۔ ان کا مشہور شعر ہے۔
برتر گمان ووہم سے احمد کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے
(حقیقت الوحی ص۲۷۴ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۲۸۶)