اوّل… مؤمن کامل کو خدائے تعالیٰ سے اکثر بشارتیں ملتی ہیں۔
دوم… مؤمن کامل پر ایسے امور غیبیہ کھلتے ہیں جو نہ صرف اس کی ذات یا اس کے واسطے داروں سے متعلق ہوں۔ بلکہ جو کچھ دنیا میں قضا وقدر نازل ہونے والی ہے یا بعض دنیا کے افراد مشہورہ پر جو کچھ تغیرات آنے واہے ہیں۔ ان سے برگزیدہ مؤمن کو اکثر اوقات خبر دی جاتی ہے۔
سوم… یہ کہ مؤمن کامل کی اکثر دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔
چہارم… مؤمن کامل پر قرآن کریم کے حقائق ومعارف جدیدہ ولطائف وخواص عجیبہ سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں۔‘‘ (آسمانی فیصلہ ص۱۳، خزائن ج۴ ص۳۲۳)
’’خدا نے مجھے قرآنی معارف بخشے ہیں۔ خدا نے مجھے قرآن کی زبان میں اعجاز عطاء فرمایا ہے۔ خدا نے میری دعاؤں میں سب سے بڑھ کر مقبولیت رکھی ہے… خدا نے مجھے وعدہ دے رکھا ہے کہ تجھ سے ہر ایک مقابلہ کرنے والا مغلوب ہوگا۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۵۵، خزائن ج۱۷ ص۱۸۱)
صداقت کے یہ چار معیار معین کرنے کے بعد مرزاقادیانی نے (آسمانی فیصلہ ص۱۴) میں علمائے اسلام کو چیلنج دیا ہے کہ وہ آئیں اور ان چار باتوں میں ان کا مقابلہ کریں۔
امر اوّل ددوم پیش گوئیوں کے ضمن میں آتے ہیں۔ اس لئے ان کے متعلق پیش گوئیوں کے باب میں بحث کی جائے گی۔ یہاں صرف امر سوم وچہارم کے متعلق عرض کیا جائے گا۔
قبولیت دعاء
حقیقت الوحی اور چند دیگر تصانیف میں مرزاقادیانی نے چند ایسی دعاؤں کا ذکر فرمایا ہے جو قبول ہوئی تھیں۔ لیکن ایک غیر جانبدار محقق کے پاس ایسے وسائل موجود نہیں جن سے کام لے کر وہ پتہ چلا سکے کہ آیا حقیقتاً وہ دعائیں قبول ہوئی تھی یا نہیں۔ ایسی دعاؤں کا تعلق ایسے مقامی یا غیر مقامی لوگوں سے تھا۔ جو آج دنیا میں موجود نہیں اور نہ وہ کوئی ایسی شہادت (تحریر وغیرہ) چھوڑ گئے ہیں جس سے ہم کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ سکیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ احمدی بھائیوں میں ایسے لوگ مل جائیں گے۔ جنہوں نے مرزاقادیانی کو دیکھا اور ان کی دعاؤں سے بھی فائدہ اٹھایا۔ لیکن دنیا کی کوئی عدالت ان کی شہادت کو غیرجانبدارانہ قرار نہیں دے سکتی۔ اس لئے یہ شہادتیں ایک یقین انگیز فیصلہ پہ پہنچنے کے لئے مفید نہیں۔