چھٹا باب … مسیح ودجال
مسیح ودجال کے مسئلے کو سمجھنے کے لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ سو برس میں انگریز کی پالیسی دنیائے اسلام کے متعلق کیا رہی۔ چونکہ مسلمان ہندوستان سے قسطنطنیہ اور مراکش تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختلف اسلامی ممالک پہ جداگانہ بحث کی جائے۔
ترک
انیسویں صدی کے آواخر میں ترکی سلطنت طرابلس کی آخری حدود تک پھیلی ہوئی تھی۔ مراکش اور الجیریا آزاد اسلامی سلطنتیں تھیں۔ مراکش کو کئی طرح اہمیت حاصل تھی۔
اوّل… کہ وہ آبنائے جبرالٹر کے عین سامنے واقع تھا اور اس پر قابض قوم بحیرۂ روم اور اوقیانوس کی گذرگاہوں کے لئے مستقل خطرہ بن سکتی تھی۔
دوم… اس میں لوہے کی کانیں تھیں۔
سوم… یہاں سے لڑائی کے لئے بہترین رنگروٹ مل سکتے تھے۔
چہارم… یہ اجناس خام کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ یہ فوائد ومنافع دیکھ کر فرانس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ لیکن انگریز درمیان میں آکودا۔ بڑی لے دے کے بعد ان دونوں اقوام میں ایک خفیہ معاہدہ ہوا۔ جس کے رو سے فرانس کو مراکش پر اور انگریز کو مصر پر قبضہ کرنے کی اجازت مل گئی۔ چنانچہ انگریزوں نے ۱۸۸۲ء میں بلاوجہ اسکندریہ پر بمباری شروع کر دی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ترکی کا مرد بیمار کافی نحیف ہوچکا تھا اور اس میں ان نوخیز آلات جدیدہ سے مسلح اور فتنہ جو اقوام سے طاقت مقابلہ باقی نہیں رہی تھی۔ چنانچہ ترکوں کو رسوا کن شرائط پہ صلح کرنا پڑی اور انگریز نے مصر کے ایک حصے پر تسلط جمالیا۔ چھ برس بعد مصر کے تمام مالیئے پہ قبضہ کر لیا اور عثمانیوں کا تسلط محض برائے نام باقی رہ گیا۔ ۱۸۹۶ء میں انگریزی فوجوں نے لارڈ کچنر کی کمان میں سوڈان پر حملہ کر دیا اور دوسال بعد اس پر قبضہ کر لیا۔ سوڈان میں انگریزی فوجیں اس انداز سے داخل ہوئیں کہ شہیدان وطن کی قبریں کھود کر ہڈیاں باہر پھینک دیں اور مہدی سوڈانی کی لاش سے تو وہ ذلت آمیز سلوک کیا کہ خدا کی پناہ۔ ۱۸۹۹ء میں انگریزوں نے تمام معاہدات کو بالائے طاق رکھ کر مصر پر مکمل قبضہ کر لیا اور لارڈ کچنر پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے۔