چیز کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ جس کے بغیر نہ تو وہ راستہ کی پرخطر گھاٹیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اور نہ ہی منزل مقصود تک پہنچ سکتا۔ یہ چیز جس کی ضرورت لاینفک اور جس کی احتیاج یقینی ہے اور اس احتیاج میں وہ کوئی شرم وندامت اور سبکی وخفت بھی محسوس نہیں کرتا یہ ہے شاہراہ زندگی میں جہاں جہاں دوراہے آئیں وہاں نشان راہ نصب ہوں۔ جن پر واضح اور بیّن الفاظ میں لکھا ہو کہ یہ راستہ کدھر جاتا ہے اور دوسرا راستہ کس طرف؟ اب اگر راہ رو کی آنکھوں میں بصارت ہے اور فضا میں روشنی کہ جس کی مدد سے یہ نشانات راہ پڑھے جا سکیں تو پھر راستہ قطع کرنے پر منزل مقصود تک پہنچ جانا یقینی ہے۔ ’’لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون‘‘
جب ذہن انسانی اس طرح سن رشد وشعور کو پہنچ گیا تو جس راہنمائی کو وحی کے ذریعے دیا جانا مقصود تھا اور جس میں اب نہ کسی حک واضافہ کی ضرورت تھی اور نہ ہی تغیر وتبدل کی حاجت۔ اسے آخری مرتبہ نبی آخرالزمان، حضور رسالت مآبﷺ کی وساطت سے انسانوں تک پہنچا دیاگیا۔ اس ضابطۂ وحی کا نام قرآن کریم ہے۔ اس ضابطۂ ہدایت کی خصوصیات یہ بتائی گئیں۔
قرآن کی خصوصیات
۱… یہ کتاب مفصل ہے۔ سورۂ انعام میں ہے۔ ’’افغیر اﷲ ابتغی حکما وھو الذی انزل الیکم الکتب مفصلا (انعام:۱۱۵)‘‘ {کیا میں خدا کے سوا کسی اور فیصلہ کرنے والے کو تلاش کروں۔ حالانکہ اس نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کر دی ہے جو مفصل ہے۔}
۲… جو غیر متبدل حقائق شروع سے چلے آرہے تھے وہ سب اس کے اندر آگئے ہیں۔ ’’وانزلنا الیک الکتب بالحق مصدقاً لما بین یدیہ من الکتب ومہیمناً علیہ (مائدہ:۴۸)‘‘ {ہم نے تیری طرف (اے رسولؐ) ایسی کتاب نازل کر دی ہے جو ان دعاوی کو سچ کر دکھائے گی جو کتب سابقہ میں انسانوں سے گئے گئے تھے اور یہ تمام ابدی حقائق کو محیط ہے۔}
۳… انسانی راہنمائی سے متعلق کوئی بات ایسی نہیں جو اس میں درج ہونے سے رہ گئی ہو۔ ’’ما فرطنا فی الکتب من شیٔ (انعام:۳۸)‘‘ {ہم نے اس کتاب میں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی۔}
۴… ہر بات کو کھول کر بیان کرتی ہے۔ ’’ونزلنا علیک الکتب تبیانا لکل شیٔ (النحل:۸۹)‘‘