۴… میں نے افغانی حملوں کے زمانے کا ارادہ کیا۔
۵… میں نے زلزلوں کے زمانے کا ارادہ کیا۔
کوئی مطلب سمجھ میں آیا؟ اگر آیا ہے تو سمجھائیے۔ اگر نہیں آیا اور یقینا نہیں آیا ہوگا۔ تو مت بھولئے کہ آخری فقرہ ایک الہام کا لفظی ترجمہ ہے جو مرزاقادیانی پہ نازل ہوا تھا۔ ’’اردت زمان الزلزلۃ‘‘ میں نے زلزلوں کے زمانے کا ارادہ کیا۔
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۵۸، خزائن ج۲۲ ص۵۹۷)
کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ آپ زلزلوں کے زمانے میں جانا چاہتے ہیں؟ یا اس زمانے کو کچھ لمبا کرنا چاہتے ہیں یا اس کو سزا دینا چاہتے ہیں؟ آخر جو کچھ کرنا تھا۔ اس کا ذکر اس الہام میں آنا چاہئے تھا۔ تاکہ ابہام نہ پیدا ہوتا۔
اسی طرح کے بیسیوں الہامات اور ہیں۔ جن میں سے بعض کی زبان غلط ہے اور بعض مفہوم کے لحاظ سے مہمل ہیں۔ ہم بخوف طوالت انہیں نظر انداز کرتے ہیں۔
تاریخ رسالت میں پہلی مرتبہ
الہام کی طویل تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا۔
اوّل… کہ اﷲ نے پنجاب کے ایک رسول پر عربی زبان میں الہامات نازل کئے اور اپنی قدیم سنت (قوم رسول کی زبان میں وحی نازل کرنا) کو ترک کر دیا۔
دوم… کہ اﷲ نے تمام کے تمام الہامات اپنے رسول کی مدح وثناء تک محدود رکھے اور کوئی اخلاقی، سیاسی یا عمرانی ضابطہ نازل نہ فرمایا۔
سوم… کہ اﷲ نے انسانوں کو ایک دجال سیرت قوم کی غلامی کا درس دیا۔
چہارم… کہ جہاد جیسے اہم اور بنیادی اصول حیات کو ختم کر دیا۔
پنجم… کہ اﷲ کا ذخیرۂ الفاظ ختم ہوگیا۔ کہیں قرآن کی آیات دوبارہ نازل کر کے کام چلایا۔ کہیں مقامات حریری سے مدد لی۔ (دیکھو سورۂ فاتحہ کی الہامی تفسیر جس میں مقامات حریری وبدیعی کے بیسیوں جملے بالفاظہا موجود ہیں) کہیں شعرائے جاہلیت کے مصرعے اڑالیے۔ ’’عفت الدیار محلہا ومقامہا‘‘ آپ کا ایک الہام ہے اور یہ سبع معلقات کے ایک قصیدہ کا پہلا مصرعہ ہے اور کہیں ادھر ادھر سے انسانی اقوال لے لئے۔ مثلاً شکر اﷲ سعیہ (تذکرہ ص۷۲) (آپ کا الہام) منتہی الارب میں شکر کے تحت درج ہے۔
ششم… اور سب سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ اﷲ غلط سلط اور مہمل زبان بولنے لگا۔ ذرا