جاری ہے۔ اس کے لئے (یہ حضرات) دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم کلامی فیضان خداوندی ہے۔ جس کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ یہ محض لفاظی ہے۔ جس کی دین میں کوئی حقیقت نہیں۔ اس کی تائید میں بھی یہ حضرات بعض صوفیاء کے اقوال پیش کر دیتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے۔ دین میں سند خدا کی کتاب ہے اور کتاب اﷲ کی رو سے خدا کا کلام اس کی وحی ہے۔ جواب قرآن کریم میں محفوظ ہے۔ اس نے قرآن کریم کو کلام اﷲ کہہ کر پکارا ہے۔ جب ہم قرآن کریم پڑھتے ہیں تو خدا ہم سے ہم کلام ہورہا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ کون سی ہم کلامی ہے۔ جس کی ضرورت باقی ہے۔ قرآن کریم نے جب اپنے آپ کو مکمل اور غیر متبدل کہا تو اس سے مراد یہی تھا کہ اب مزید ہم کلامی کی ضرورت نہیں رہی۔ اس نے کہا تھا کہ: ’’وتمت کلمٰت ربک صدقاً وعدلاً (الانعام:۱۱۵)‘‘ تیرے خدا کا کلام (کلمات اﷲ) صدق وعدل کے ساتھ مکمل ہوگیا۔ لیکن ان حضرات کا دعویٰ ہے کہ ہم کلامی کو قرآن تک محدود رکھا جائے تو دنیا کے لئے کوئی روحانی غذا باقی نہیں رہے گی۔ (معاذ اﷲ استغفراﷲ) اس کا مطلب واضح ہے کہ ان حضرات کے نزدیک قرآن دنیا کے لئے کافی روحانی غذا مہیا نہیں کرتا۔مخالفین عرب کا بھی کچھ اسی قسم کا خیال تھا جس کی تردید کے لئے کہا کہ: ’’اولم یکفہم انا انزلنا علیک الکتب یتلیٰ علیہم (العنکبوت:۵۱)‘‘ {کیا ان کے لئے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تیری طرف یہ کتاب نازل کی جسے ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔}
انہوں نے تو اس کا جو جواب دیا ہوگا دیا ہوگا۔ یہ حضرات چھاتی پر ہاتھ مار کر کہتے ہیں کہ ہاں! یہ کتاب دنیا کی روحانی غذا کے لئے کافی نہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہم کلامی کے سلسلہ کا جاری رہنا ضروری ہے۔ (پناہ خدا) ایسے ہی ہیں وہ لوگ جن کے متعلق کہاگیا ہے کہ: ’’واذا ذکر اﷲ وحدہ اشمازت قلوب الذین لا یؤمنون بالاٰخرۃ واذا ذکر الذین من دونہ اذا ہم یستبشرون (الزمر:۴۵)‘‘ {جب ان کے سامنے اکیلے خدا کی بات کی جاتی ہے تو یہ لوگ جو آخرت کے منکر ہیں۔ ان کا منہ سوج جاتا ہے اور دلوں میں اضطراب پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن جب اس کے علاوہ دوسروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو یہ بہت خوش ہوتے ہیں۔}
ظاہر ہے کہ یہ دوسرے وہی ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ خدا سے ہم کلام ہوتے ہیں۔
پیش گوئیاں
یہ حضرات مرزاقادیانی کے دعویٰ ہم کلامی کے ثبوت میں ان کی پیش گوئیاں سامنے