ہندوستان میں تو انگریزوں نے ان کی اس اسکیم کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس طرح کی ریاست کے اندر ایک ریاست قائم ہو جائے گی۔ پاکستان پہنچنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلا قدم اس اسکیم کی عملی تشکیل کے لئے اٹھایا۔ چنانچہ انہوں نے مئی ۱۹۴۸ء میں ایک وسیع خطہ زمین حاصل کیا اور قائداعظمؒ کی وفات کے چند ہی روز بعد وہاں ایک بستی بسانے کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ بستی وہی ہے جو ربوہ کے نام سے مشہور ہے۔
نگاہ اوبشاخ آشیانہ
بسنے کو تو یہ لوگ ربوہ میں بس گئے۔ لیکن ان کے قلب ونگاہ کا مرکز قادیان ہی رہا۔ وہ قادیان جو ان کے نزدیک ساری دنیا سے زیادہ مقدس بستی ہے۔ ان کی نگاہوں میں اس کی اہمیت کیا ہے۔ اس کے متعلق ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر ان میں سے دوچار اقتباسات یہاں بھی درج کئے جاتے ہیں۔
۱… ’’قرآن شریف میں جس مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے۔ اس سے مراد قادیان کی مسجد ہے۔ (اب ربوہ کی مسجد کا نام اقصیٰ ہے)‘‘ (الفضل قادیان نمبر۲۲ ج۲۰، بابت ۲۱؍اگست ۱۹۳۳ئ)
۲…
زمین قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
(درثمین ص۵۲، مجموعہ کلام، مرزاغلام احمد قادیانی)
۳… ’’حضرت مسیح موعود کا جو یہ الہام ہے کہ ہم مکہ میں مریںگے یا مدینہ میں۔ اس کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں نام قادیان کے ہیں۔ (لہٰذا) قادیان کے جلسہ میں شمولیت کو ظلی حج کہنا ناجائز نہیں۔‘‘ (تقریر میاں محمود احمد قادیانی مندرجہ الفضل بابت ۵؍جنوری ۱۹۳۳ئ)
۴… ’’آج جلسہ کا پہلا دن ہے اور ہمارا جلسہ بھی حج کی طرح ہے۔‘‘
(تقریر میاں محمود احمد قادیانی جلسہ سالانہ ۱۹۱۴ئ، مندرجہ برکات خلافت ص ہ)
۵… ’’جیسے احمدیت کے بغیر پہلا (یعنی مرزاقادیانی کو چھوڑ کر جو) اسلام باقی رہ جاتا ہے وہ خشک اسلام ہے۔ اسی طرح ظلی حج کو چھوڑ کر مکہ والا حج بھی خشک حج رہ جاتا ہے۔‘‘
(قادیانی جماعت کے ایک بزرگ کا ارشاد مندرجہ اخبار پیغام صلح، مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۳۳ئ)
ان حضرات کے عقیدہ کی رو سے قادیان کے ساتھ ان کے جس قدر گہرے جذبات وابستہ ہوسکتے ہیں۔ اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بیت المقدس پر یہودیوں کا تسلط