چونکہ ہمارے قارئین کو عربی صرف ونحو سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے ہم اختصار سے کام لیں گے اور صرف چند اغلاط پہ مجملاً بحث کریںگے۔
۱…الہامات
۱… عربی میں مؤنث ومذکر کے لئے ضمائر جدا جدا ہیں۔ مثلاً غائب کی ضمیریں یہ ہیں۔
مذکر: ہو ہما ہم
وہ ایک مرد وہ دو مرد وہ سب مرد
مؤنث: ہی ہما ہن
وہ ایک عورت وہ دو عورتیں وہ سب عورتیں
جس طرح اردو میں بعض بے جان اشیاء مذکر ہیں اور بعض مؤنث۔ مثلاً پہاڑ مذکر ہے اور ندی مؤنث۔ یہی حال عربی زبان کا ہے۔ عربی میں ارض وسما مؤنث ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے لئے ضمیر مؤنث استعمال ہوگی۔ لیکن مرزاقادیانی کے ایک الہام میں ان دونوں کے لئے ضمیر مذکر استعمال ہوئی ہے۔ جو صریحاً غلط ہے۔ ’’الارض والسماء معک کما ہو معی‘‘ اے احمد! آسمان وزمین تیرے ساتھ ہیں۔ جس طرح کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ (تذکرہ ص۲۷۴)
دوسرا کمال یہ کیا کہ دو اشیاء کی طرف ضمیر مفرد راجع کر دی۔ حسب قواعد ہما چاہئے۔
۲… ’’انا آتیناک الدنیا‘‘ ہم نے تم کو دنیا دے دی۔ (تذکرہ ص۳۶۶)
چونکہ یہاں ایک خدائی نعمت وعطاء کا ذکر ہے۔ اس لئے ’’اعطیناک‘‘ زیادہ مناسب تھا۔ گو قواعد کے لحاظ سے آتیناک بھی صحیح ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ الہام کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ نے ساری دنیا مرزاقادیانی کے حوالے کر دی تھی؟ آپ کو علم ہے کہ مرزاقادیانی چند ایکڑ زمین کے مالک تھے۔ وبس جہاں تک روحانی تسخیر کا تعلق ہے گذشتہ اٹھاسی برس میں صرف چند ہزار افراد آپ پر ایمان لائے۔ اگر یہ مطلب ہو کہ آگے چل کر تمام دنیا احمدیت قبول کر لے گی تو میرا اندازہ یہ ہے کہ اضافہ کے امکانات بہت کم ہیں۔ وجہ یہ کہ عصر حاضر میں اقدار حیات بدل گئی ہیں۔ آج وہی پیغام اور وہی فلسفہ کامیاب ہوسکتا ہے جو آدم جدید کو تازہ الجھنوں مثلاً سرمایہ ومزدور آمریت، جمہوریت، اشتراکیت، ملوکیت، روابط بین الملکی، جمعیت اقوام یا جمعیت آدم، قیام امن، ورلڈ فیڈریشن وغیرہ سے نکال کر ہر مشکل کا ایک قابل قبول حل پیش کر