ہادوا (مائدہ:۴۴)‘‘ {ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔ انبیاء جو خدا کے فرمانبردار تھے۔ یہودیوں کے فیصلے اسی کی رو سے کرتے تھے۔}
یہ حضرات کہتے ہیں کہ دیکھئے! یہاں کہاگیا ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل، یہودیوں کے فیصلے تورات کے مطابق کرتے تھے۔ اس سے واضح ہے کہ ان انبیاء کی اپنی کتاب کوئی نہیں تھی اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب (تورات) کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔
ان کی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ توراۃ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب قرار دیتے ہیں۔ قرآن کریم نے کہیں بھی توراۃ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب نہیں کہا۔ جیسا کہ معلوم ہے جسے بائبل کہا جاتا ہے۔ اس کے دو حصے ہیں۔ عہدنامہ جدید اور عہد نامہ عتیق، عہدنامہ جدید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی (مبینہ) تعلیمات پر مشتمل ہے اور عہد نامہ عتیق مختلف انبیاء بنی اسرائیل کی کتابوں کا مجموعہ ہے۔ جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صرف پانچ صحیفے ہیں۔ قرآن کریم اس تمام مجموعہ (عہد نامہ عتیق) کو توراۃ کہہ کر پکارتا ہے۔
اور صحف موسیٰ کا الگ بھی ذکر کرتا ہے۔ لہٰذا جہاں کہاگیا ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ توراۃ کی رو سے کرتے تھے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ان امور کا فیصلہ اپنی اپنی کتابوں کے مطابق کرتے تھے۔ جن کا مجموعہ توراۃ کے نام سے متعارف ہے۔
ہمارے ہاں کا عقیدہ
لیکن ہم احمدی حضرات سے کیا کہیں۔ جب خود ہمارے علماء کرام کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ نبی اور رسول میں فرق ہوتا ہے۔ رسول صاحب کتاب ہوتا ہے اور نبی بلاکتاب۔ علامہ محمد ایوب دہلوی، اپنے پمفلٹ ’’فتنہ انکار حدیث‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا بالاجماع اور بالاتفاق یہ عقیدہ ہے کہ نبی صاحب کتاب بھی ہوتا ہے اور بغیر کتاب کے بھی۔ (فتنہ انکار حدیث ص۱۰)
ہمارے ہاں بعض (وضعی) روایات بھی ایسی ہیں اور نامور بزرگوں (بالخصوص صوفیاء حضرات کے اقوال بھی) جن سے رسول اور نبی یا تشریعی اور غیر تشریعی نبی میں امتیاز کیاگیا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے مجلہ طلوع اسلام بابت ستمبر ۱۹۶۱ئ۔
احمدی حضرات ہمارے علماء سے بحث میں اس قسم کی روایات اور اسلاف کے اقوال پیش کر کے ان سے پوچھتے ہیں کہ اگر مرزاقادیانی ان دعاوی کی رو سے (تمہارے نزدیک) مفتری اور کذاب تھے تو فرمائیے۔ آپ کا ان بزرگوں کے متعلق کیا ارشاد ہے۔ جن کے اقوال اور روایات ہم پیش کررہے ہیں۔ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ اس کا ایک ہی جواب ہے