ہیں۔ ہمیں وہ بالکل نظر نہیں آتا۔ نہ ہی قریب المرگ اس کی کوئی شہادت دیتا ہے۔ اس قسم کی آیات میں قرآن کریم غیر مرئی کیفیات کا اظہار کرتا ہے۔ ان سے ہمارے لئے اتنا ہی سمجھنا کافی ہے کہ ایمان واستقامت کا نتیجہ خوف وحزن سے مامونیت اور جنت کی زندگی ہے اور کفر کا نتیجہ ذلت وخواری اور جہنم کا عذاب۔ پھر آیت میں اتنا ہی کہا گیا ہے کہ ملائکہ ان مؤمنین کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہاگیا کہ وہ انہیں غیب کی خبریں بتاتے ہیں۔ اس بشارت (خوشخبری) سے نفسیاتی تغیر مقصود نظر آتا ہے۔ کیونکہ دیگر آیات میں جہاں کہاگیا ہے کہ خدا نے (بدر وغیرہ کے میدانوں میں) اسلامی لشکروں کی ملائکہ کے ذریعے مدد کی تو وہاں کہاگیا ہے کہ: ’’وما جعلہ اﷲ الا بشریٰ لکم ولتطمئن قلوبکم بہ (آل عمران:۱۲۶)‘‘ اس (نزول ملائکہ) کو تمہارے لئے خوشخبری اور اطمینان قلب کا موجب بنایا اور دوسری طرف مخالفین کے دلوں میں تمہارا رعب ڈالنے کا باعث، یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ملائکہ آکر غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے۔
جیسا کہ اوپر کہا جاچکا ہے غیب کی خبریں صرف وحی کے ذریعے رسولوں کو ملا کرتی تھیں۔ مرزاقادیانی کو اس کا علم تھا اس لئے ان کا بھی یہی دعویٰ تھا کہ انہیں یہ خبریں بذریعہ وحی ملتی ہیں۔ انہوں نے ان پیش گوئیوں کے متعلق کہا تھا: ’’میرے پر خدائے تعالیٰ نے ظاہر کیا تھا۔ سخت بارشیں ہوںگی اور گھروں میں ندیاں چلیں گی اور اس کے بعد سخت زلزلے آئیںگے۔ چنانچہ ان بارشوں سے پہلے وہ وحی الٰہی بدر اور الحکم میں شائع کر دی گئی تھی۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۶۴، خزائن ج۲۲ ص۳۷۸)
اسے ایک بار پھر سمجھ لیجئے کہ قرآن کریم نے کہا ہے کہ علم غیب رسولوں کو بذریعہ وحی ملتا تھا۔ اس لئے اگر مرزاقادیانی کو یہ علم بذریعہ وحی ملتا تھا تو ان کا دعویٰ رسالت کا تھا۔
منعم علیہ
مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کی تائید میں (قادیانی حضرات کی طرف سے بالخصوص) ایک دلیل یہ بھی دی جاتی تھی کہ سورۂ فاتحہ میں مسلمانوں کو یہ دعاء سکھائی گئی ہے کہ: ’’اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم (فاتحہ:۵)‘‘ {دکھا ہم کو سیدھی راہ۔ راہ ان لوگوں کی جن پر تو نے اپنا انعام کیا۔}
اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ سورۂ النساء میں ہے: ’’ومن یطع اﷲ والرسول