میرے اولاد موجود ہے اور کہا کیا رسول اﷲﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہ ہوگا اور میں مدینہ سے آرہا ہوں اور مکہ کی طرف جارہا ہوں۔ ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ ابن صیاد نے آخری بات مجھ سے یہ کہی کہ تم آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم میں دجال کی پیدائش کے وقت کو جانتا ہوں۔ اس کا مکان جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور اس کے ماں باپ کا نام بھی جانتا ہوں۔ ہمراہیوں میں سے کسی شخض نے اس سے کہا کیا تجھ کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ تم خود ہی دجال ہو؟ ابن صیاد نے کہا اگر مجھ کو وہ صفات دے دی جائیں جو دجال میں ہیں تو میں برا نہ سمجھوں۔‘‘ (مسلم ج۲ ص۳۹۷، باب ذکر ابن صیاد)
تاویل اور خواب کی دنیا دجال، یاجوج ماجوج، دوبارہ آنے والے عیسیٰ ابن مریم اور مہدی کے حالات آپ نے گذشتہ باب میں پڑھ لئے ہیں۔ یہ حالات حدیث کی مستند کتب سے لئے گئے ہیں اور علماء کا دعویٰ ہے کہ یہ حالات رسول کریمﷺ کی بیان کردہ پیش گوئیوں پر مبنی ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کے درست ہونے پر ایمان لائیں۔
یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عرصہ سے امت کا ان پیش گوئیوں کی صحت پر اجماع رہا ہے۔ اگر امت سے مراد مولوی ہی ہیں تو مجھے اس دعویٰ سے اتفاق ہے۔ مولوی حقائق سے دور اپنی ایک الگ دنیا میں رہتے ہیں۔ جہاں کسی امر کے عقل اور قیاس کے مطابق ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ بات روایت کی کسی کتاب میں لکھی ہے اور محدثین نے اس کو صحیح بیان کیا ہے۔ لیکن مسلمانوں کے روشن خیال پڑھے لکھے طبقہ نے ان پیش گوئیوں والی احادیث کو کبھی اہمیت نہیں دی اور نہ شعوری طور پر کبھی ان پر یقین کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ مذہب کی نسبت سہل انگاری کی پالیسی کے تحت یہ طبقہ مولویوں کے اعتقاد کی تردید بھی نہیں کرتا کہ کون خواہ مخواہ کا جھگڑا مول لے۔ عملاً اس مخمصے میں پڑنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ طبعی علوم کی ترقی کے اس دور میں دجال اور اس سے متعلقہ کرداروںکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خود دنیا کے مسائل نے ایسی پیچیدہ شکل اختیار کر لی ہے کہ اس طرح کے جناتی تصورات میں الجھنے کی کسی کی کو فرصت ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عرصہ سے مولویوں کے محدود دائرہ کے باہر مسلمانوں کے کسی طبقہ کو نہ ہی دجال اور جساسہ کا خوف ہے اور نہ ان فتنوں سے نجات دلانے کے لئے کسی عیسیٰ یا مہدی کے ظہور کا انتظار۔