استحکام میں اسے اگر کوئی خطرہ نظر آتا تھا تو وہ مسلمانوں کی طرف سے تھا۔ وہ سید احمد (شہید) بریلوی اور شاہ اسماعیل (شہید) دہلوی کی تحریک جہاد میں دیکھ چکا تھا کہ امت مسلمہ کے اس راکھ کے ڈھیر میں ابھی وہ چنگاریاں دبی ہوئی ہیں جو تھوڑی سی موافق ہوا سے شعلہ جوالہ بن سکتی ہیں۔ بظاہر وہ تحریک بالاکوٹ میں دفن ہوچکی تھی۔ لیکن اس کی روح بدستور زندہ تھی۔ اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد وہابی تحریک کی شکل میں سلگ اور سرک رہی تھی۔ انگریز اس سے خائف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے تشدد سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اسے مذہب ہی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے پہلے انہوں نے سوچا کہ اس مقصد کے حصول کے لئے ایک باقاعدہ تحریک چلائی جانی چاہئے۔ (ہنٹر نے اپنی کتاب میں اس کا تفصیلی ذکر کیا ہے)
مسلمانوں کا عقیدہ تھا کہ آخری زمانہ میں امام مہدی کا ظہور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہوگا۔ ان کی زیر سیاست وامامت اسلام کا پھر سے غلبہ ہو جائے گا۔ اس تحریک کے لئے جس کا ذکر اوپر کیاگیا ہے۔ یہ ضروری سمجھا گیا کہ ایک ایسا مہدی اور مسیح موعود آجائے جو ان کے جذبہ انتظار کی بھی تسکین کر دے اور جہاد کے خطرہ کو بھی دور۔ یہ تھی اس تحریک کی وجہ تخلیق اور یہ تھا وہ مقصد جسے مرزاقادیانی نے پورا کرنے کی مذموم کوشش کی۔
اقبالؒ کا بیان علامہ اقبالؒ نے ۱۹۳۵ء میں تحریک احمدیت کے سلسلہ میں طویل بیانات (انگریزی زبان میں) دئیے تھے جو بعد میں احمدیت اور اسلام کے نام سے شائع ہوگئے تھے۔ وہ ایک بیان میں ان خدشات اور وساوس کا ذکر کرتے ہوئے جو مسلمانوں کے عقیدہ جہاد کی رو سے انگریز کے دل میں پیدا ہورہے تھے۔ کہتے ہیں کہ انگریزوں نے پہلے یہ کوشش کی کہ اس عقیدہ کی تردید منطقی دلائل کی رو سے کر دی جائے۔ لیکن انہوں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ یہ منطق کے بس کا روگ نہیں۔ انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ: ’’مسلمان عوام کو جن میں مذہبی جذبہ بہت شدید ہے۔ صرف ایک چیز قطعی طور پر متأثر کر سکتی ہے۔ یعنی وحی کی سند، راسخ عقائد کو مؤثر طریق پر جڑ بنیاد سے اکھیڑنے اور مذکورہ بالا سوالات میں جو دینی نظریات مضمر ہیں۔ ان کی ایک ایسی نئی تفسیر وتعبیر کرنے کے لئے جو سیاسی طور پر مفید مطلب ہو۔ یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس کی بنیاد وحی پر رکھی جائے۔ یہ (مبنی بروحی)‘‘ بنیاد احمدیت نے فراہم کر دی۔ خود احمدیوں کا دعویٰ ہے کہ برطانوی شاہنشاہیت کی یہ سب سے بڑی خدمت ہے جو انہوں نے سرانجام دی ہے۔
(انگریزی ایڈیشن ص۱۲۶)