اخبار الفضل میں ہے: ’’پس ہمارا صحابہ کی جماعت میں شامل ہونا مسیح موعود کے عین محمد ہونے پر ایک پختہ اور بدیہی دلیل ہے۔‘‘ (الفضل ۷؍اگست ۱۹۱۵ئ)
دوسری جگہ ہے: ’’پس ہر احمدی کو جس نے احمدیت کی حالت میں حضور(مرزاقادیانی) کو دیکھا یا حضور(مرزاقادیانی) نے اسے دیکھا۔ صحابی کہا جائے۔‘‘
(الفضل ۱۳؍دسمبر ۱۹۳۶ئ)
قادیان…ارض حرم
جب مرزاقادیانی رسول ٹھہرے اور ان کی جماعت میں شامل ہونے والے صحابہ، تو جس سرزمین (قادیان) پر ان کی بعثت ہوئی۔ وہ خود بخود ارض حرم قرار پاگئی۔ چنانچہ مرزاقادیانی کا مشہور شعر ہے کہ ؎
زمین قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
(درثمین ص۵۲، مجموعہ کلام مرزاقادیانی)
قرآن کریم میں کعبہ کے متعلق ہے کہ: ’’ومن دخلہ کان اٰمنا‘‘ مرزاقادیانی فرماتے ہیں کہ یہ صفت قادیان کی مسجد کے متعلق ہے۔ ارشاد ہے: ’’بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب (براہین احمدیہ)‘‘ کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیعت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے جو اس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے اور آخری فقرہ مذکورہ بالا ’’ومن دخلہ کان اٰمنا‘‘ اس مسجد کی صفت میں بیان فرمایا ہے۔ (براہین احمدیہ ص۵۵۸) مسجد اقصیٰ بھی قادیان ہی کی مسجد کا نام ہے۔ اخبار الفضل میں ہے: ’’سبحن الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الیٰ المسجد الاقصا الذی برکنا حولہ‘‘ کی آیت کریمہ میں مسجد اقصیٰ سے مراد قادیان کی مسجد ہے۔
(الفضل قادیان نمبر۲۲ ج۲۰، مورخہ ۲۱؍اگست ۱۹۳۳ئ)
میاں محمود احمد قادیانی نے کہا: ’’میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے بتادیا ہے کہ قادیان کی زمین بابرکت ہے۔ یہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ والی برکات نازل ہوتی ہیں۔‘‘
(الفضل قادیان نمبر۷۰ ج۲۰ ص۱، مورخہ ۱۱؍دسمبر ۱۹۳۲ئ)
ضمناً یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ میاں محمود احمد قادیانی نے فرمایا کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے بتادیا ہے۔ بالفاظ دیگر میاں صاحب بھی وحی کے مدعی تھے۔ اب آگے بڑھئے۔