دعویٰ ولایت
’’ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کے قائل ہیں اور آنحضرتﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت جو زیرسایہ نبوت محمدیہ اور بہ اتباع آنجنابﷺ اولیاء اﷲ کو ملتی ہے۔ اس کے ہم قائل ہیں… غرض نبوت کا دعویٰ اس طرف بھی نہیں صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے۔‘‘ (مندرجہ تبلیغ رسالت ج۶ ص۲،۳، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۹۷)
دوسری جگہ کہتے ہیں: ’’یہ کہنا کہ نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ کس قدر جہالت، کس قدر حماقت اور کس قدر حد سے خروج ہے۔ اے نادانو! میری مراد نبوت سے یہ نہیں کہ میں نعوذ باﷲ آنحضرتﷺ کے مقابل کھڑا ہوکر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف میری مراد نبوت سے کثرت مکالمت ومخاطبت الٰہیہ ہے جو آنحضرتﷺ کی اتباع سے حاصل ہے۔ سو مکالمہ اور مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)
آپ اقتباس بالا پر غور کیجئے۔ ہم شروع میں لکھ چکے ہیں کہ روایات کی رو سے ہمارے ہاں یہ عام عقیدہ ہے کہ اولیاء اﷲ خدا سے ہم کلام ہوتے ہیں اور انہیں کشف والہام کے ذریعے خدا سے براہ راست علم لدنی حاصل ہوتا ہے۔ مرزاقادیانی اپنے دعویٰ ولایت کی تائید میں مسلمانوں کے اس عقیدہ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور اس طرح فریق مقابل کو خاموش کر دیتے ہیں۔ اگر ان سے قرآن کریم کی بناء پر بات کی جاتی اور قدم اوّل ہی میں یہ کہہ دیا جاتا کہ ختم نبوت کے بعد خدا سے مکالمہ اور مخاطبہ کا کوئی ثبوت قرآن سے نہیں ملتا۔ نہ ہی اس میں کشف والہام کا کوئی ذکر ہے۔ لہٰذا آپ کا (مرزاقادیانی کا) یہ دعویٰ قرآن کے خلاف اور ختم نبوت کے منافی ہے۔ تو بات وہیں ختم ہو جاتی۔ لیکن ان سے بحث کرنے والے علماء کشف والہام اور مخاطبہ ومکالمہ خداوندی کے خود قائل تھے۔ وہ ان کے دعویٰ کی تردید کس طرح کر سکتے تھے۔
محدث ہمارے ہاں اولیاء اﷲ کے علاوہ ایک اصطلاح محدث (دال زبر کے ساتھ) بھی ہے۔ اس کے معنی بھی خدا سے ہم کلام ہونے والا ہیں۔ (اس کی تفصیلی بحث ساتویں باب میں ملے گی جہاں ہم احمدیوں کے دلائل کا تجزیہ کریںگے) مرزاقادیانی نے ایک قدم آگے بڑھایا اور محدثیت کا دعویٰ کردیا۔ فرمایا: ’’ہمارے سید ورسول اﷲﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرتﷺ کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس لئے شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے