نے یہ کہہ کر دور کر دیا کہ میں رسول اﷲﷺ کا (معاذ اﷲ) اوتار ہوں۔ اس لئے جو نام حضورﷺ کے تھے وہی میرے ہیں۔ ان کے الفاظ میں: ’’اس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق عباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام مسیح رکھا اور مجھے خو اور بو اور رنگ اور روپ کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ مسیح کا اوتار کر کے بھیجا۔ ایسا ہی اس نے حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد رکھا اور مجھے توحید پھیلانے کے لئے تمام خو اور بو اور رنگ اور روپ اور جامہ محمدی پہنا کر حضرت محمدﷺ کا اوتار بنادیا۔‘‘ (ضمیمہ رسالہ جہاد ص۵،۶، خزائن ج۱۷ ص۲۷،۲۸)
اس دعویٰ کو صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’اس جگہ کسی کو یہ وہم نہ گذرے کہ ہم نعوذ باﷲ نبی کریمﷺ کو احمد نہیں مانتے۔ ہمارا ایمان ہے کہ آپ احمد تھے۔ بلکہ ہمارا تو یہاں تک خیال ہے کہ آپ کے سوا کوئی احمد نہیں اور نہ کوئی احمد ہوسکتا ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا آپ اپنی پہلی بعثت میں بھی احمد تھے؟ نہیں! بلکہ آپ اپنی پہلی بعثت میں محمدیت کی جلالی صفت میں ظاہر ہوئے تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سورۂ صف میں کسی ایسے رسول کی پیش گوئی کی گئی ہے جو احمد ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ پیش گوئی نبی اکرمﷺ کی پہلی بعثت کے متعلق نہیں بلکہ آپ کی دوسری بعثت یعنی مسیح موعود کے متعلق ہے۔ کیونکہ مسیح موعود جمالی صفت کا مظہر یعنی احمد ہے۔ اس حقیقت کو حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب اعجاز المسیح میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور کھول کھول کر بتایا ہے کہ نبی کریمﷺ کے دو بعث میں بعث اوّل میں اسم محمد کی تجلی تھی۔ مگر بعث دوم، اسم احمد کی جلوہ گری کے لئے ہے۔‘‘ (کلمتہ الفصل مندرجہ رسالہ ریویو اف ریلیجنزنمبر۳ ج۱۴ ص۱۳۹،۱۴۰)
ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ جب معاملہ اوتار تک پہنچ گیا تو پھر کون سی کسر باقی رہ گئی۔
احمدی جماعت
بہرحال اس طرح مرزاقادیانی نے رسول (احمد) ہونے کا دعویٰ کیا۔ اپنی جماعت کا نام احمدی رکھا اور اس جماعت میں شامل ہونے والوں کو صحابہ کہاگیا۔ خطبہ الہامیہ میں کہا: ’’مسیح موعود کے عین محمد ہونے کی اوّل دلیل یہ ہے جو حضرت مسیح موعود الہامی شان کے الفاظ میں یوں تحریر فرماتے ہیں اور خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس نبی کریم کے لطف اور جود کو میری طرف کھینچا۔ یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا۔ پس وہ جو میری جماعت میں شامل ہوا درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ میں داخل ہوا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ ص۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۲۵۸،۲۵۹)