کس طرح کھینچا تانی کی جارہی ہے۔ جس رسول کی رسالت خود (مرزابشیر الدین محمود قادیانی کے الفاظ میں) بلااستثناء تمام مذاہب تمام زمانوں، تمام قوموں کو قیامت تک محیط ہے۔ اس کے بعد کسی اور آنے والے کا کیا سوال۔ لیکن یہ حضرات رسالت محمدیہ کی (قیامت تک) ابدیت اور ہمہ گیریت کے بھی قائل ہیں اور پھر ایک اور آنے والے کے بھی مدعی، اس دعویٰ کی بنیاد روایت پر ہے۔ قرآن پر نہیں۔
فارسی النسل
پھر یہاں جو فارسی النسل ہونے کا ذکر ہے۔ یہ بڑی دلچسپ چیز ہے۔ لیکن اس کی تشریح کا یہ مقام نہیں۔ جو حضرات اس سے دلچسپی رکھتے ہوں۔ وہ میری کتاب ’’شاہکار رسالت‘‘ کا آخری باب ملاحظہ فرمائیں۔ اس مقام پر صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اس فارسی الاصل ہونے کی شرط نے پھر ایک مشکل پیدا کر دی۔ مرزاقادیانی مغل (برلاس) خاندان سے متعلق تھے جو فارسی الاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ واقعی مشکل تھی جس کا کوئی حل نظر نہیں آتا تھا۔ لیکن اس کا حل بھی وحی نے پیدا کر دیا۔
مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے۔ کوئی تذکرہ ہمارے خاندان میں نہیں دیکھاگیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا۔ ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہماری بعض دادیاں شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں۔ اب خدا کے کلام سے معلوم ہوا کہ دراصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے۔ سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں۔ کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسی کہ اﷲتعالیٰ کو معلوم ہے کسی کو ہرگز نہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۲ ص۱۷ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۳۶۵)
دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’میرے پاس فارسی ہونے کے لئے بجز الہام الٰہی کے اور کچھ ثبوت نہیں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۸، خزائن ج۱۷ ص۱۱۶)
محمدؐ کے اوتار
بات یہاں سے چلی تھی کہ مرزاقادیانی نے اپنے دعویٰ نبوت کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس بشارت پر رکھی جو قرآن کریم (سورۂ صف) میں مذکور ہے۔ لیکن اس میں پیچ یہ آپڑا کہ اس میں آنے والے رسول کا نام احمد بتایا گیا ہے۔ پہلے یہ کوشش کی گئی کہ یہ ثابت کیا جائے کہ مرزاقادیانی کا نام درحقیقت احمد تھا۔ لیکن اس میں بھی بہت سے اشکال لاحق تھے۔ کیونکہ یہ ثابت تھا کہ خود حضور نبی اکرمﷺ کے اسمائے گرامی محمد اور احمد (دونوں) تھے۔ اس الجھن کو مرزاقادیانی