غیر تشریعی نبوت
مرزاقادیانی کی نبوت کے سلسلے میں دو دیگر اصطلاحات جن پر بہت بحث کی گئی ہے۔ تشریعی اور غیر تشریعی نبوت ہیں۔ اس ضمن میں جماعت احمدیہ کی طرف سے آیت خاتم النبیین کی توضیح یہ کی جاتی ہے کہ اس سے مراد تشریعی نبوت کا ختم ہونا ہے۔ یعنی محمد رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے۔ لیکن غیر تشریعی نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔
گو قرآنی آیت اور اس کے سیاق وسباق میں اس تفریق کے لئے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کے اس نظریے کی تائید بعض ائمہ کے اقوال سے ہوتی ہے۔ دلیل یہ دی گئی ہے کہ قرآن کے ذریعہ دینی احکام کی تکمیل ہوگئی ہے اور یہ احکام تمام دنیا کے لئے اور ہر زمانے میں ہدایت کے لئے کافی ہیں اور اب کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن شریعت کی وضاحت اور اس کے نفاذ کی حاجت باقی ہے اور یہ کام غیر تشریعی انبیاء کے ذریعہ تکمیل پاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ نبوت کی تشریعی اور غیر تشریعی اقسام کی تمیز کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے انبیاء میں اس کی مثال موجود ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت نبی تھے۔ ان کے ذریعہ توریت کی صورت میں ایک نئی شریعت جاری کی گئی۔ لیکن بنی اسرائیل کے وہ انبیاء جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے غیر تشریعی تھے۔ وہ کوئی جدید شریعت نہ لائے۔ بلکہ ان کا کام موسوی شریعت کی تجدید اور اس کا نفاذ تھا۔
اس ضمن میں حسب ذیل امور قابل غور ہیں۔
۱… نبوت کی تشریعی اور غیر تشریعی اصناف میں تقسیم غیر قرآنی تصور ہے۔ (غیر قرآنی سے یہاں مراد یہ ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے) اور چونکہ احمدیہ نظریہ کے مطابق یہ تقسیم شروع سے موجود رہی ہے۔ اس لئے قرآن میں اتنے بنیادی معاملے کا ذکر نہ ہونا ایک حیرت انگیز بات ہے۔
۲… یہ تقسیم غیر منطقی اور مصنوعی ہے اور کسی اصول پر مبنی نہیں۔ شریعت کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک عام اخلاقی قواعد مثلاً راست بازی، دیانت واعمال صالح کی تعلیم اور ہر قسم کی بدیوں سے بچنے کی تلقین۔ ظاہر ہے کہ اس معنی میں شریعت ہمیشہ ایک ہی رہی ہے۔ تمام انبیاء تشریعی ہیں۔ انہوں نے اسی شریعت کی تعلیم دی ہے اور کوئی بھی جدید شریعت نہیں لایا۔ لیکن شریعت کا ایک دوسرا محدود اور نسبتاً غیر اہم مفہوم بھی ہے اور عام طور پر شریعت سے یہی محدود مفہوم لیا جاتا ہے۔ اس کے مطابق شریعت سے مراد ظاہری عبادات کے قواعد اور قانون کا وہ حصہ ہے جو