میں شامل ہیں تو پھر مرزامحمود احمد قادیانی کے نزدیک بابا نانک کو نبی تسلیم کیا جائے گا۔ لیکن چوہدری ظفر اﷲ خان نے انہیں زمرۂ انبیاء میں شامل نہیںکیا۔ خدا کا آخری نبی مرزاغلام احمد کو بتایا ہے۔
البتہ میاں محمود قادیانی نے خود اپنے آپ کو زمرۂ انبیاء اور رسل میں شامل کر لیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ: ’’جس طرح مسیح موعود کا انکار تمام انبیاء کا انکار ہے۔ اسی طرح میرا انکار انبیائے بنی اسرائیل کا انکار ہے۔ جنہوں نے میری خبر دی۔ میرا انکار شاہ نعمت اﷲ ولی کا انکار ہے۔ جنہوں نے میری خبر دی۔ میرا انکار مسیح موعود کا انکار ہے۔ جنہوں نے میرا نام محمود رکھا اورمجھے بیٹا ٹھہرا کر میری تعیین کی۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان نمبر۲۴ ج۵، مورخہ ۲۲؍ستمبر ۱۹۱۷ئ)
اگر حکومت ہمارے پاس ہوتی تو…
آپ اس کتاب کے آخری باب میں دیکھیںگے۔ حکومت پاکستان نے احمدیوں کو غیرمسلم قرار دے دیا ہے۔ اس پر شور مچایاگیا کہ کفر اور اسلام کا تعلق اﷲتعالیٰ سے ہے۔ کسی حکومت کو حق حاصل نہیں کہ وہ اس امر کا فیصلہ کرے۔ دین میں اکراہ نہیں۔
ہم نے اس کی وضاحت کی ہے کہ یہ فیصلہ نہ دین میں اکراہ ہے نہ اس سے احمدیوں پر کسی قسم کی زیادتی کی گئی ہے۔ اس کے برعکس آپ دیکھئے کہ خود احمدی حضرات کے مذہب کے معاملہ میں کیا خیالات ہیں۔ مرزامحمود قادیانی نے اپنی ایک تقریر میں (جو اخبار الفضل کی ۲؍جون ۱۹۳۶ء کی اشاعت میں شائع ہوئی تھی) فرمایا تھا کہ: ’’حکومت ہمارے پاس نہیں کہ ہم جبر کے ساتھ ان لوگوں کی اصلاح کریں اور ہٹلر یا مسولینی کی طرح جو شخص ہمارے حکموں کی تعمیل نہ کرے اسے ملک سے نکال دیں اور جو ہماری باتیں سننے اور ان پر عمل کرنے پر تیار نہ ہو۔ اسے عبرتناک سزادیں۔ اگر حکومت ہمارے پاس ہوتی تو ہم ایک دن کے اندر اندر یہ کام کر لیتے۔‘‘
اگر اپنی حکومت نہ ہو تو…
اگر اپنی حکومت نہ ہو تو بھی مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے ہروقت تیار رہنا چاہئے۔ (غیر مسلمنوں کے ساتھ نہیں، مسلمانوں کے ساتھ) چنانچہ میاں محمود احمد نے ۱۹۳۴ء میں اپنے ایک خطبہ میں کہا تھا: ’’قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عام مؤمن دو مخالفوں پر بھاری ہوتا ہے اور اگر اس سے بھی ترقی کرے تو صحابہؓ کے طرز عمل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک نے ہزار کا مقابلہ کیا ہے۔ ہماری جماعت مردم شماری کی رو سے پنجاب میں چھپن ہزار ہے۔ گویہ بالکل غلط ہے۔ صرف اسی ضلع گورداسپور میں تیس ہزار احمدی ہیں۔ مگر فرض کر لو۔ یہ تعداد درست ہے اور فرض کر لو کہ باقی تمام ہندوستان میں ہماری جماعت کے بیس ہزار افراد رہتے ہیں۔