علامہ ابوالبقاء اپنی کلیات میں لکھتے ہیں۔ ’’لام التعریف سواء دخلت علیٰ الفردا وعلیٰ الجمع تفید الاستغراق الا اذاکان معہودا‘‘ (الف، لام، مفرد پر داخل ہویا جمع پر۔ استغراقی ہوگا۔ ہاں اگر تعیین کر لی جائے تو اور بات ہے)
مثلاً ’’ہدی للمتقین‘‘ {قرآن تمام متقین کے لئے ہدایت ہے۔} ’’واﷲ محیط بالکافرین‘‘ {اﷲ تمام کفار کا محاصرہ کر رہا ہے۔} ’’رب العالمین‘‘ {اﷲ تمام کائنات کا رب ہے۔} وغیرہ وغیرہ۔
تو خاتم النبیین کے معنی ہوںگے۔ تمام نبیوں کا، خواہ وہ ظلی ہوں یا امتی۔ ختم کرنے والا۔ اگر خاتم کے معنی یہ کئے جائیں کہ صرف تشریعی انبیاء ختم ہوئے ہیں تو پھر خاتم النبیین کا مفہوم ہوگا۔ خاتم بعض النبیین یعنی حضور شرعی انبیاء کے خاتم ہیں اور غیر شرعی آتے رہیں گے۔ ختم یا خاتمہ انتہاء کا دوسرا نام ہے۔ وہ انتہاء کیسی جس کے بعد بھی کوئی چیز موجود رہے۔ وہ آخری گاڑی کیسی۔ جس کے بعد بھی گاڑیاں آتی رہیں اور وہ جیب میں آخری پیسہ کیسا جس کے بعد بھی جیب میں دوسوروپے باقی ہوں۔
چودہ لاکھ احادیث کے دفتر بے پایاں میں جہاں وضاعین نے سینکڑوں مقامات پر حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنادیا ہے۔ صرف ایک حدیث ایسی ملتی ہے جس سے اجرائے نبوت کا امکان نکلتا ہے اور وہ یہ ہے جب حضورﷺ کا فرزند ابراہیم فوت ہوگیا تو بروایت ابن ماجہ آپؐ نے فرمایا: ’’لوعاش لکان صدیقاً نبیاً‘‘ {اگر ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔} یہ روایت محض غلط ہے۔ اس لئے کہ قرآن حکیم کی ایک سوآیات اور دوسو دس احادیث کے خلاف ہے اور اس کی وہی تفسیر قابل قبول ہے جو امام بخاری، ابونعیم اور احمد نے پیش کی۔
فرماتے ہیں۔ ’’ولوقضی بعد محمدﷺ نبی عاش ابنہ ولکن لا نبی بعدہ‘‘ {اگر حضورﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا مقدر ہوتا تو ابراہیم زندہ رہتا اور آپ کے بعد نبی بنتا۔ لیکن حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔}
اور تقریباً یہی مضمون ہے حدیث ذیل کا۔ احادیث کے تمام مجموعوں میں موجود ہے۔ ’’لوکان بعدی نبیا لکان عمر‘‘ {اگر میرے بعد نبی ہوسکتا تو عمر ہوتا۔}
لفظ خاتم کا استعمال مرزاقادیانی کے ہاں
مرزاقادیانی نے سینکڑوں مرتبہ لفظ خاتم استعمال کیا اور ان مقامات کے بغیر جہاں خاتم